غزوۂ بدر کے نتیجہ میں پورے عرب میں، خاص طور پر بدر کے قریب کے علاقہ پر اہل ایمان کی دھاگ بیٹھ گئی. اور اس طرح اس غزوہ میں فتح و کامرانی کی بدولت دعوت توحید اور اسلامی تحریک کی انقلابی جدوجہد کو بڑی تقویت حاصل ہوئی. پورے عرب میں یہ خبر جنگل (۱) صندید کی جمع، سردار کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ قریش کا کیل کانٹے سے لیس ایک ہزار کا لشکر جناب محمد کے تین سو تیرہ قریباً نہتے اور بے سروسامان ساتھیوں سے شکست کھا گیا___ یہ نفوسِ قدسی جنگ کے ارادے سے تو نکلے ہی نہیں تھے، یہ تو اولاً صرف ابو سفیان کے قافلہ کا راستہ روکنے کے لیے نکلے تھے. مدینہ سے روانگی کے وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک ہزار کے مسلح لشکر سے مڈبھیڑ ہو جائے گی ___ سیرتِ نبوی پر جناب محمد بن عبدالوہاب نجدیؒ کے صاحبزادے شیخ عبداللہ کی تالیف ’’مختصر سیرۃ الرسول ‘‘ میں یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے کہ حضور نے مدینہ منورہ سے روانگی کے وقت صرف اس قافلہ پر یورش کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا جو مالِ تجارت لے کر شام سے واپس آ رہا تھا، لہذا کوئی نفیر عام نہیں تھی، کوئی اعلان جنگ نہیں تھا. قافلہ کے ساتھ محافظوں کی تعداد کا اندازہ کر کے حضور مدینہ سے روانہ ہوئے تھے. یہ تو مدینہ سے باہر نکل کر حضور کو خبر ملی کہ قافلہ پر مسلمانوں کی یورش (۱کے ارادہ کی خبر قریش کو مل چکی ہے اور قریش کا کیل کانٹے سے لیس ایک ہزار کا لشکر مدینہ کی طرف بڑھ رہا ہے.

یہ خبر ملنے کے بعد حضور نے مشورہ فرمایا کہ قافلہ کی طرف چلیں یا لشکر کی طرف! اس موقع پر صحابہ کرامؓ میں سے جن حضرات نے قافلہ کی طرف چلنے کا مشورہ دیا تھا تو اصل میں ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم جنگ کے لیے تو تیار ہو کر نکلے ہی نہیں، نہ ہم نے اس اعتبار سے اپنی نفری بنائی ہے اور نہ ہی اس کے لیے سازو سامان ساتھ لیا ہے. پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ غزوۂ ذوالعشیرہ میں ڈیڑھ سو مہاجرین ؓ نبی اکرم کے ساتھ تھے، جبکہ غزوۂ بدر کے موقع پر صرف تریسٹھ یا تراسی مہاجرینؓ حضور کے ہمراہ تھے. گویا مہاجرین کی نفری بھی پوری نہیں تھی. لہذا یہ رائے نہ تو بزدلی کی بنیاد پر تھی اور نہ منافقت کی بنیاد پر، بلکہ جو بھی احوال و اسباب تھے ان کی بنیاد پر صحیح تھی کہ ہم اس ارادہ سے نہیں نکلے، لہذا قافلہ کی طرف چلنا بہتر اور مناسب ہو گا. لیکن حضور کا منشا کچھ اور تھا. حضور اللہ کی مشیت کے مطابق چاہتے تھے کہ فیصلہ ہو جائے لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ (۱) حملہ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ (الانفال:۴۲’’ کہ جو مرے وہ دلیل کے ساتھ مرے اور جوجئے وہ دلیل کے ساتھ جئے‘‘.

اب عالمِ عرب میں جب یہ خبر پہنچی کہ قریش کی ایک ہزار کی جمعیت تین سو تیرہ مسلمانوں سے شکست کھا گئی اور غزوۂ بدر کے میدان میں ان کے ستر بڑے بڑے سورما کھیت رہے تو عالم عرب میں مسلمانوں کی دھاگ بیٹھ گئی. غزوۂ بدر میں سردارانِ قریش کے جسم اس طرح کٹ کر گرے ہوئے تھے جس طرح سورۃ الحاقہ میں قومِ عاد کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ فَتَرَی الۡقَوۡمَ فِیۡہَا صَرۡعٰی ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ خَاوِیَۃٍ ۚ﴿۷﴾ یعنی مشرکین مکہ میدانِ بدر میں ایسے پڑے ہوئے تھے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے. ابو جہل میں ابھی جان باقی تھی جب نبی اکرم نے پاس آ کر اس کی گردن پر اپنا پاؤں مبارک رکھا اور فرمایا ھٰذَا فِرْعَوْنُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ ’’یہ شخص اِس امت کا فرعون ہے‘‘. پس اس فتح سے اہلِ ایمان کو بڑی تقویت حاصل ہوئی. ایک طرف ان کا حوصلہ (Morale) بہت بلند ہوا تو دوسری طرف تمام عرب پر مسلمانوں کی ہیبت اور رعب پڑ گیا. لہذا غزوۂ بدر کے بعد مسلمانوں کے تیرہ ماہ شادمانی اور مسرت کے گزرے اور اس دوران اسلام کی دعوت کے اثرات میں وسعت پیدا ہوئی. لیکن اس کا نتیجہ بھی نکلا کہ اب کچھ کچے اور اور ضعف ارادہ کے حامل لوگ بھی آ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو گئے. اس سے پہلے تک معاملہ یہ تھا کہ جو آتا تھا وہ پوری طرح سوچ سمجھ کر آتا تھا. وہ جانتا تھا کہ دعوتِ اسلام قبول کرنے سے اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہو جائیں گی اور اسے کن کن خطرات سے دوچار ہونا پڑے گا. اسے ہر لمحہ جان ہتھیلی پر رکھنی ہوگی، اس راہ میں مشکلات کے پہاڑ آئیں گے، مصائب و شدائد سے سابقہ پیش آئے گا. لیکن بدر کی فتح سے جب صورتِ حال بدل گئی تو کچھ کچے اور ناپختہ لوگ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے.

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات