مسلح تصادم (۲)اُحَد و  اَحْزَاب 

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَـقِینَا اَ بَدًا 
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم 

غزوۂ اُحد

خطبۂ مسنونہ ، تلاوت ِ آیاتِ قرآنی، احادیثِ نبوی اور ادعیۂ ماثورہ کے بعد:

غزوہ بدر رمضان المبارک ۲ھ میں وقوع پذیر ہوا تھا. تیرہ ماہ بعد شوال ۳ھ میں مشرکین مکہ کے ایک لشکرِ جرار نے مدینہ پر چڑھائی کر دی جو جوشِ انتقام سے بھرا ہوا تھا. اس وقت ان کے سینوں میں انتقام کی جو آگ بھڑک رہی تھی اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا. جن حضرات کو قبائلی زندگی کا کچھ تجربہ ہے اور جنہیں عرب کے انتقامی جذبات و احساسات سے کچھ واقفیت ہو اور جنہوں نے ان کی اس دور کی شاعری اور خطبات پڑھے ہوں وہ کچھ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اُس وقت ان کی زندگی کس طور پر اجیرن 
(۱ہو گئی تھی. مکہ والوں نے غزوۂ بدر کے بعد ایک دن بھی چین اور آرام سے نہیں گزارا. انتقامی جذبات لاوے کی طرح ہر دل میں کھول رہے تھے. ابوسفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک مقتولینِ بدر کا انتقام نہیں لیا جائے گا نہ خوشبو لگاؤں گانہ چارپائی پر سوؤں گا. اسی طرح اس ایک سال کے دوران ہندہ کا جو حال رہا ہے وہ بھی ناقابل تصور ہے، جس کا باپ مارا گیا، چچا مارا گیا، بھائی مقتول ہوا. یہ ہندہ ابو سفیان کی بیوی، عتبہ کی بیٹی اور حضرت ابو حذیفہؓ ، جو سابقون الاولون میں سے ہیں، کی بہن ہیں. ہندہ بھی فتح مکہ کے موقع پر ایمان لے آئی تھیں اور مؤمنہ صادقہ ثابت ہوئیں.