قریش کی پیش قدمی اور حضور ﷺ کی مشاورت

بہرحال اب جو لشکر مدینہ پر چڑھ دوڑا تھا وہ تین ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھا.قریش اپنی اور اپنے حلیفوں کی جو ممکنہ قوت اور طاقت جمع کر کے لا سکتے تھے وہ لے کر میدان میں آ گئے. اس موقع پر بھی نبی اکرم نے مدینہ منورہ میں ایک مشاور ت منعقد فرمائی کہ اس موقع پر کیا (۱) مشکل،دشوار حکمت ِ عملی اختیار کی جائے، جبکہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کرنے آ رہا ہے.

حضور کی ذاتی رائے تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مقابلہ کیا جائے. عجیب اتفاق ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کی رائے بھی یہی تھی. آخر جھوٹا انسان ہر موقع پر تو جھوٹ نہیں بولتا، کبھی وہ سچ بھی بولتا ہے. عبداللہ بن ابی مدینہ کا رہنے والا تھا، لہذا وہ اپنے حالات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ اس طرح کی صورتِ حال میں مدینہ والے محصور ہو کر مدافعت کیا کرتے تھے تاکہ مرد گلیوں میں دُو بدو لڑیں اور عورتیں اوپر سے دشمن پر پتھراؤ کریں. اس طرح گویا کہ ان کی دوہری طاقت روبکار 
(۱آجاتی تھی. چنانچہ انہی مصلحتوں کے پیش نظر عبداللہ بن ابی کی رائے بھی یہ تھی کہ ہمیں کھلے میدان میں جنگ کرنے کی بجائے محصور ہو کر اپنی مدافعت کرنی چاہیے. بعض قرائن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم  کا رجحان بھی یہی تھا.

لیکن ایک تو اکابر صحابہ ؓ میں سے بعض حضرات کھلے میدان میں جنگ کرنے کے حامی تھے، جن میں حضرت حمزہؓ کا بھی نام شامل ہے ___ اب یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے تھا کہ اسی جبلِ اُحد کے دامن میں ان کی شہادت ہونی ہے. لہذا ان کی طرف سے خصوصی جوش و خروش کا مظاہرہ ہو رہا تھا کہ ہمیں محصور ہو کر نہیں بلکہ مردانہ وار دُو بدو جنگ کرنی چاہیے ہمیں تو شہادت درکار ہے ___ دوسرے یہ کہ نوجوانوں کی طرف سے بھی یہی مطالبہ تھا، خاص طو رپر ان حضرات کی طرف سے جو غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے، کیونکہ غزوۂ بدر کے موقع پر نفیرِ عام تو تھی ہی نہیں. اُس وقت نبی اکرم اور چند صحابہؓ جو نکلے تھے وہ جنگ کے ارادے سے تو نکلے ہی نہیں تھے. تو انداز کیجئے کہ جو لوگ اس غزوہ میں شریک ہونے سے رہ گئے تھے ان کے سینوں میں کتنی حسرت ہو گی کہ وہ کتنی بڑی سعادت سے محروم رہ گئے. لہذا ان کا جوش و خروش بھی دیدینی 
(۲تھا کہ کھلے میدان میں جا کر جنگ کرنی چاہیے. پھر اس تیرہ ماہ کے عرصہ میں جو لوگ ایمان لائے تھے، ان کے ذہنوں میں ہو سکتا ہے یہ بات ہو کہ جب تین سو تیرہ اہلِ ایمان نے بدر میں اتنی بڑی فتح حاصل کی (۱) استعمال ہونا (۲) دیکھنے کے قابل ہے تو اللہ کی مدد آخر یہاں بھی تو ہمارے شامل حال ہو گی، لہذا فتح تو ہمیں ہونی ہی ہونی ہے، ہم اپنے دامن پر یہ داغ کیوں گوارا کریں کہ ہم نے مردوں کی طرح کھلے میدان میں جا کر جنگ نہیں کی. پس یہ مختلف اسباب تھے جن کی وجہ سے محسوس ہوا کہ زیادہ لوگوں کی خواہش ہے کہ کھلے میدان میں جنگ ہو.
چنانچہ نبی اکرم نے اپنی رائے پر اصرار نہیں فرمایا اور اپنے ساتھیوں کی رائے کے مطابق فیصلہ فرما دیا کہ کھلے میدان ہی میں مقابلہ کیا جائے گا. اس طرح جماعتی زندگی کا ایک اہم اصول سامنے آ گیا. مشورہ اور اس کی اہمیت سامنے آ گئی. اگرچہ اسلامی نظم جماعت میں فیصلہ کا آخری اختیار امیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے، وہ اکثریت کی رائے کا پابند نہیں ہوتا، لیکن تدبیر کے معاملہ میں اپنے ساتھیوں کی دلجوئی کے لیے اور ان کے اندر ایک باہمی اعتماد کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے امیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ بعض مواقع پر اپنے ساتھیوں کا احترام کرتے ہوئے ان کی رائے کے مطابق فیصلہ دے، جیسا کہ حضور کے اسوۂ حسنہ سے سامنے آتا ہے. البتہ یہ طرزِ عمل صرف تدبیر کے معاملہ میں اختیار کیا جائے گا. ظاہر بات ہے کہ نص میں، یعنی ایسے معاملے میں جہاں اللہ اور اس کے رسول کا صریح حکم موجود ہو یہ طرزِ عمل ہرگز اختیار نہیں کیا جا سکتا. تدبیر کے معاملہ میں بھی یہ بات ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ گو تدبیر ہماری ہے لیکن مآلِ کار 
(۱تمام معاملات کا اختیار تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، جو وہ چاہے گا نتیجہ اس کے مطابق ظاہر ہو گا.

نبی اکرم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کی اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے فیصلہ فرما دیا کہ کھلے میدان میں جنگ ہو گی. اس کے بعد غیر معمولی واقعہ یہ ہوا کہ نبی اکرماپنے حجرۂ مبارک میں تشریف لے گئے. جب آپ باہر تشریف لائے تو آپ نے زرہ زیب تن فرمائی ہوئی تھی. یہ ایک غیر معمولی بات تھی جس پر صحابہ کرامؓ کا ماتھا ٹھنکا ___ قبل ازیں حضور نے خواب بھی دیکھا تھا کہ ایک گائے ذبح ہوئی ہے، اور بھی چند باتیں خواب میں ایسی دیکھیں تھیں جن کی بنا پر حضور کو اندازہ تھا کہ میدانِ 
(۱) کام کا انجام اُحد میں چند غیر معمولی اور ناخوشگوار واقعات ظہور پذیر ہوں گے. حضور کو زرہ پہنے دیکھ کر لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ ہم اپنی رائے واپس لیتے ہیں، آپ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کیجئے اور انتظام فرمایئے. لیکن حضور نے فرمایا کہ نہیں، یہ فیصلہ برقرار رہے گا. نبی کو یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار باندھنے کے بعد بغیر جنگ کیے انہیں اُتار دے.

قریباً یہی بات سورۂ آل عمران کی آیت ۱۵۹ـ میں فرمائی گئی ہے جو گویاحضور کے اس طرزِ عمل کی توثیق میں نازل ہوئی ___ یہ بات متفق علیہ ہے کہ سورۂ آلِ عمران کا بیشتر حصہ غزوۂ اُحد کے بعد نازل ہوا ہے ___ محولہ بالا آیت میں بالکل وہی نقشہ ہے جس پر حضور نے عمل فرمایا تھا. گویا جو کام نبی اکرم نے اپنے ذاتی اجتہاد سے کیے، بعد میں اللہ کی طرف سے قرآن مجید میں ان کی توثیق آ گئی ___ وہ آیتِ مبارکہ یہ ہے کہ 
فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ’’(اے نبی !) یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر بڑا فضل و کرم اور بڑی رحمت ہے کہ آپ اپنے ان ساتھیوں کے حق میں بڑے نرم ہیں (جوان کی دلجوئی فرماتے ہیں). اگر آپ کہیں سخت دل اورتُند خُو ہوتے تو یہ لوگ منتشر ہو گئے ہوتے (آپ کے پاس سے چھٹ گئے ہوتے)‘‘. اقبال نے اس مضمون کو بڑی خوبصورتی سے ایک شعر میں سمو دیا ہے کہ ؎

کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم (۱) سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی!

یہ خوئے دلنوازی (۲جناب محمد رسول اللہ  میں بتمام و کمال موجود تھی. یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس اسلوب سے فرمائی فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ’’پس آپ ان کی خطاؤں سے درگزر کیجئے، ان کے لیے استغفار بھی کرتے رہا کیجئے اور ان سے معاملات میں مشورہ بھی لیجئے‘‘. فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ’’پس جب آپ فیصلہ کر لیں تو پھر اللہ پرتوکل کیجئے‘‘. یعنی پھر فیصلے کا بار بار بدلنا درست (۱) خانہ کعبہ (۲) دل نوازی کی عادت نہیں. آیت کا اختتام ہوتا ہے ان عظیم ترین الفاظ مبارکہ پر اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹﴾ ’’بلاشبہ اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘. جن کو اللہ محبوب قرار دے ان سے خوش بخت و خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے!