بہرحال جنگ ہوئی تو پہلے ہلے ہی میں مشرکین کے قدم اُکھڑ گئے اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا شروع کیا. چند کفار کا تعاقب کر رہے تھے اور چند مالِ غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے تھے. ادھر جو صحابہ کرامؓدَرہ پر تعینات تھے ان میں اختلاف رائے ہو گیا. ان پچاس تیر اندازوں میں سے اکثر نے کہا کہ چلو ہم بھی چلیں، مالِ غنیمت جمع کریں، اب تو فتح ہو گئی ہے. ان کے کمانڈر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ نے فرمایا ’’ہرگز نہیں، حضور نے فرمایا تھا کہ یہاں سے نہ ہلنا، لہذا میں کسی کو اجازت نہیں دیتا‘‘. لیکن ہوا یہ کہ اکثر نے اپنے کمانڈر کی بات نہ مانی اور اس دَرے کو چھوڑ کر مالِ غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس غلطی کے باعث فتح شکست میں بدل گئی.

یہاں یہ سمجھ لیجئے کہ اس غلطی کی نوعیت کیا تھی. ان حضرات نے جو دَرے کو چھوڑ گئے اپنے نزدیک غالباًیہ تاویل کی ہو گی کہ حضور نے تو شکست کی صورت میں اتنا زور دیا تھا کہ چاہے ہم سب ہلاک ہو جائیں اور تم دیکھو کہ پرندے ہماری بوٹیاں نوچ کر کھا رہے ہیں تب بھی تم یہاں سے مت ہٹنا. اب تو فتح ہو گئی ہے، لہذا اب یہاں سے ہلنے میں کیا ہرج ہے. درہ میں متعین سب کے سب مومنین صادقین تھے. اچھی طرح سمجھ لیجئے غلطی خلوص سے بھی ہو جاتی ہے، نیک نیتی سے بھی ہو جاتی ہے. لہذا میری تعبیر یہ ہے کہ ان سے تاویل میں غلطی ہوئی ہو گی. واللہ اعلم!