دَرّہ چھوڑ کر چلے جانے والے صحابہ کرامؓ کی اصل غلطی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے مقامی امیر کی حکم عدولی کی تھی. اصل بات یہ ہے کہ جو اس دستہ کا امیر ہے وہ تو اجازت نہیں دے رہا. چلئے انہوں نے نبی اکرم کے حکم کی تاویل کر لی. لیکن یہاں ان کے اور حضور کے مابین ایک لوکل کمانڈر موجود ہے جس کو محمد رسول اللہ  نے امیر مقرر فرمایا ہے ___ اس امیر کی تو نافرمانی ہو گئی! ڈسپلن تو بہرحال ٹوٹ گیا! نظم کی اہمیت کے بارے میں بیعت عقبہ ثانیہ کے وہ الفاظ یاد کیجئے جو حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں. اس حدیث کو امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ اپنی اپنی صحیح میں لائے ہیں. سند کے اعتبار سے حدیث کے صحیح ہونے کا اس سے اونچا کوئی مقام نہیں ہے. حدیث یہ ہے: 

عَنْ عُبَادَۃَ ابْنِ الصَّامِتؓ قَالَ بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْـعُسْرِ وَالْـیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَـرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنـَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیـْنـَمَا کُنَّا لَا نَخَا فُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 

’’حضرت عبادۃ بن الصامتؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ  سے بیعت کی تھی کہ ہم حکم سنیں گے اور مانیں گے، خواہ مشکل ہو خواہ آسان، خواہ ہماری طبیعت کو خوش گوار لگے خواہ ناگوار ہو، خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے. اور جس کو بھی ہم پر امیر بنا دیا جائے گا ہم اس سے جھگڑیں گے نہیں، اور ہم حق بات کہتے رہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں اور اللہ کے معاملہ میں (حق کہنے سے) کسی ملامت گر کی ملامت سے ہرگز نہیں ڈریں گے‘‘.

ظاہر بات ہے کہ نبی  ہر جگہ بنفسِ نفیس تو موجود نہیں ہو سکتے تھے. 
آپ کسی مہم پر کسی لشکر کو بھیجتے تھے تو اس کا ایک کمانڈر یا امیر مقرر فرما دیتے. اب وہ امیر نبی اکرم کا قائم مقام ہے، اور معروف میں سمع و اطاعت کے اعتبار سے اس کا حکم بالکل اسی طرح مانا جائے گا جیسے نبی اکرم کا حکم مانا جائے گا. یہی Army Discipline ہے. اس کے لیے حضور کی ہدایت بایں الفاظ موجود ہے:

مَنْ اَطَاعَنِی فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللہَ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِی فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِی فَقَدْ عَصَانِی

اور بعض احادیث میں ’’امیری‘‘ کی جگہ ’’الامیر‘‘ کا لفظ ہے. یعنی:

وَمَنْ یُطِعِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ یَّعْصِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِی (بخاری و مسلم)

’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی. جس نے میرے معین کردہ امیر کا کہا مانا، اس نے میرا کہا مانا اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی‘‘.آپ یہاں لکھنا شروع کر سکتے ہیں.