اسلامی جماعت کا نظم ملاحظہ ہو کہ پچاس کی نفری میں سے کمانڈر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا اور ایسے چودہ حضرات مزید بھی تھے جنہوں نے اپنے کمانڈر کے حکم کے مطابق جگہ نہیں چھوڑ ی، لیکن پینتیس افراد وہاں سے چلے گئے. سات سو کی نفری میں پینتیس پانچ فی صد ہوتے ہیں، لیکن پانچ فی صد اشخاص کی یہ غلطی جس کو آپ Indiscipline کہیں گے، یعنی نظم کو توڑا گیا، اس کی کتنی بڑی سزا ہے جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے. اس سے نظم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے. اقبال نے کہا تھا کہ یہ امت ناقہ بے زمام بن گئی ہے، سمع و طاعت کا نظام کہیں قائم نہیں ہے. اور جب نظام ہی نہ ہو تو امت سمع و طاعت اور نظم کی خوگر بنے تو کیسے بنے! ہر شخص انانیت (۱کا شکار ہے! کوئی دوسرے کو امیر مان کر اس کے ہاتھ پر بیعت کرے! یہ جذبہ سرد پڑ چکا ہے.

آج ہماری امت ِ مسلمہ میں انتشار کی جو انتہا ہے ذرا اس کو سامنے رکھیے اور یہ واقعہ نوٹ کیجئے. کیا (معاذ اللہ) اس میں حضور کی کوئی غلطی تھی؟ ہرگز نہیں! صرف پینتیس صحابہ کرامؓ نے حضور کے ایک حکم کی غلط تاویل کر لی تھی، لیکن اپنے کمانڈر کا حکم نہ ماننے کی وجہ سے یقینا ڈسپلن توڑ دیا تھا. نظم کی خلاف ورزی کی تھی اور موجود الوقت امیر کی (۱) غرور نافرمانی کی تھی___ اس کی سزا کیاملی! یہ کہ خالد بن ولیدؓ جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے ان کی عقابی نگاہ نے تاڑ لیا کہ وہ دَرہ خالی ہے. اصل جنگ تو پیدل فوج (Infantry) کی ہوتی تھی، وہ مار کھا چکی تھی. بھگدڑ مچ چکی تھی. اب انہوں نے اُحد کی پشت کا چکر کاٹا اور دو سو گھڑ سواروں کا دستہ لے کر اس درہ سے مسلمانوں کی پیٹھ سے جو حملہ آور ہوئے تو یکلخت جنگ کا پانسہ پلٹ گیا. درہ پر صرف پندرہ تیر انداز رہ گئے تھے، ان کے لیے دو سو گھڑ سواروں کو اپنی تیروں کی بوچھاڑ سے یا تلواروں سے روکنا ممکن نہیں تھا. پچاس کی نفری برقرار رہتی تو خالد بن ولید کا اپنے دستہ کے ساتھ درہ کو کر اس کرنا ممکن نہیں تھا. یہاں پندرہ کے پندرہ اصحاب رسول نے جامِ شہادت نوش فرمایا. رضی اللہ تعالیٰ عنہم وارضا ہم!