غزوۂ اُحد کی فتح کا شکست میں بدلنا درحقیقت فشل، تنازع فی الامر اور معصیت امیر کے جرم کی پاداش میں اللہ کی طرف سے سزا تھی. تصور کیجئے کہ سزا کتنی کڑی تھی کہ سات سو میں سے ستر صحابہ کرامؓ شہید ہوئے. یعنی دس فیصد نفری شہید ہو گئی، حالانکہ خطاء صرف پانچ فی صد کی تھی. پھر شہداء محمد رسول اللہ  کے کیسے جان نثار اور کیسے کیسے ہیرے اور موتی تھے جو کیسی کیسی محنت سے جناب محمد نے جمع کیے تھے. ان ہی میں اَسَدُ اللّٰہِ وَاَسَدُ رَسُوْلِہٖ حمزہ بن عبدالمطلب ؓ ہیں، ان ہی میں المقری یعنی مصعب بن عمیر ؓ ہیں کہ جن کی دعوت و تبلیغ اور تعلیم قرآنی سے مدینہ منورہ میں اسلامی انقلاب آیا اور اوس و خزرج کے قبیلوں کے اکثر لوگ دولت ایمان سے مشرف ہوئے. مہاجرین و انصار میں سے اڑسٹھ (۶۸) دوسرے مجاہدین فی سبیل اللہ اور جان نثارانِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے جامِ شہادت نوش کیا. حضور خود بھی مجروح ہوئے، دندانِ مبارک شہید ہوئے. خود کی دو کڑیاں حضور کے رخسار مبارک میں اس طور سے گھس گئیں کہ نکالنے کے لیے زور لگایا تو نہیں نکلیں. پھر دوسرے اصحاب ؓ نے بمشکل ان کو نکالا. حضور پر غشی بھی طاری ہوئی. کفار نے ایک موقع پر حضور کو نرغے میں لے لیا اور تیروں کی بارش برسائی. جان نثاروں نے اپنے جسموں کو حضور کے لیے ڈھال بنایاکہ جو تیر آئیں وہ ہمارے سینوں میں ترازو ہوں، (۱محمد کے سینہ مبارک تک نہ پہنچیں. حضرت سعدبن ابی وقاصؓ بڑے ماہر تیر انداز تھے. حضور ان کو تیر دیتے اور فرماتے جاتے ’’سعدؓ تم پر میرے ماں باپ قربان، تیر چلاتے جاؤ ‘‘___ صرف حضرت سعدؓ ہی وہ خوش بخت صحابی ہیں جن کے لیے حضور نے یہ محبت بھرا کلمہ ارشاد فرمایا.

الغرض مسلمانوں کو بڑی واضح شکست ہوئی. افراتفری پھیلی. نبی اکرم کی شہادت کی افواہ پھیل گئی. مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے. بہرحال ان حالات میں سیرت نگاروں کے سامنے ایک عجیب سا سوال اور مسئلہ آتا ہے کہ اس صورتِ حال میں قریش واپس کیوں چلے گئے! ایک حدیث شریف کے مطابق انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے مابین ہوتا ہے، وہ اسے جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے. اس نے قریش کے دل پھیر دیئے. ورنہ وہ اس پوزیشن میں آ گئے تھے کہ اُحد میں موجود تمام مسلمانوں کا صفایا کر دیتے. بہرحال بعض ذرائع سے اس کی یہ توجیہہ ملتی ہے کہ نبی اکرم صحابہ کرام ؓ کو لے کر پہاڑ پر چڑھ گئے تھے. اگرچہ خالد بن ولیدؓ رئیس لشکر ابوسفیان سے اصرار کر رہے تھے کہ ہمیں پہاڑ پر چڑھ کر اس معاملہ کو ختم کر دینا چاہیے، اس قضیہ کو ہمیشہ کے لیے چکا دینا چاہیے، لیکن ابو سفیان بڑے حقیقت پسند، زیرک اور حالات کا بہت صحیح صحیح جائزہ لینے اور ان پر نظر رکھنے والے انسان تھے. انہوں نے انکار کر دیا کہ نہیں، اس لیے کہ مسلمان بلندی پر ہیں، وہاں سے تیروں اور پتھروں کی بوچھاڑ ہو گی تو ہمارا بہت جانی نقصان ہونے کا اندیشہ 
(۱) تیر کا بدن میں آرپار ہو کر لٹکا رہنا ہے. بہرحال ہم نے بدلہ لے لیا ہے، یہی بہت ہے.