ابوسفیان نے دامن کوہ سے نعرہ لگایا کہ محمد ( ) زندہ ہیں یا فوت ہو گئے؟ حضور خاموش رہے. اِدھر سے تین بار اسی نعرے کی تکرار ہوئی. تیسرے نعرے پر حضرت عمرؓ سے ضبط نہ ہو سکا، انہوں نے نعرہ کا جواب نعرہ سے دیا کہ ’’اے دشمنِ خدا! رسول اللہ  زندہ ہیں‘‘. پھر ابو سفیان نے کہا ’’دیکھو یہ یومِ بدر کا بدلہ ہے جو آج ہم نے چکا لیا‘‘. حضرت عمرؓ نے جواباً کہا ’’تمہارے مقتول جہنم میں ہیں جبکہ ہمارے شہداء جنت میں ہیں‘‘. ابو سفیان نے پھر نعرہ لگایا ’’اعلٰی ھُبَل‘‘. اس موقع پر ہمیں یہ ملتا ہے کہ مشرکین نے کسی بت کا نعرہ لگایا. یہ دراصل خوشی کا موقع تھا. ورنہ جب مشکل کا وقت ہوتا تو مشرکین بھی صرف اللہ ہی کو پکارتے تھے. یہاں تو انہیں فتح ہو گئی تھی اس لیے ابو سفیان نے نعرہ لگایا ’’اعلٰی ھُبَل‘‘. حضور نے فرمایا جواب دو ’’اَللّٰہُ اَعَزَّوَاَجَلُّ‘‘.مسلمانوں نے اِدھر سے یہ نعرہ بلند کیا. اُدھر سے ابو سفیان پھر پکارا ’’لَنَا عُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَـکُمْ‘‘ (ہمارے لیے تو عزی ہے جس کا سایہ ہمارے سروں پر ہے، تمہارے لیے کوئی دیوی نہیں ہے). حضور نے فرمایا جواب دو ’’اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَـکُمْ‘‘ (اللہ ہمارا مولا ہے، ہمارا پشت پناہ اور مددگار ہے، تمہارا کوئی مولانہیں). پھر ابو سفیان یہ کہہ کر اپنے لشکر کو ساتھ لے کر واپس ہو گئے کہ ’’اگلے سال یہیں پھر مقابلہ کے لیے ملاقات ہو گی!‘‘