غزوۂ اُحد کے بعد کے دو سال نبی اکرم  اور اہل ایمان کے لیے نہایت پریشان کن اور تکلیف دِہ رہے ہیں. اس لیے کہ اہل عرب پر مسلمانوں کے رعب، ہیبت اور دھاک کی جو فضا بن گئی تھی وہ بہت حد تک ختم ہو گئی. اب عین مدینہ کے قریب آ کر قریش جو اتنا بڑا چرکہ لگا گئے تو اس سے ایک تو مسلمانوں کے دل زخمی تھے. ان کا حوصلہ (Morale) اب اتنا اونچا نہیں رہا جتنا غزوۂ بدر کے بعد ہو گیا تھا. دوسرے گردوپیش کے مشرکین کے قبائل پر مسلمانوں کی جودھاک بیٹھ گئی تھی وہ باقی نہیں رہی، بلکہ وہ اسلامی انقلاب کی دعوتِ تحریک کے مقابلہ میں دلیر ہو گئے اور ان کی طرف سے مخالفت و مزاحمت کے اندیشے پیدا ہو گئے.