ان تمام ناموافق و نامساعد حالات میں اہل ایمان کی تسلی کے لیے فرمایا گیا اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ (آل عمران:۱۴۰’’مسلمانو! کیوں دل شکست ہوتے ہو، اگر تمہیں چرکہ اور زخم لگا ہے تو تمہارے دشمنوں کو بھی ایسا ہی چرکہ اور زخم لگ چکا ہے‘‘. انہوں نے تو ہمت نہیں ہاری تھی. وہ میدانِ بدر میں اپنے ستر مقتول چھوڑ کر گئے تھے اور ستر قیدی. اس کے باوجود وہ تین ہزار کی نفری لے کر مدینہ پر چڑھائی کے لیے آ گئے. تم کیوں ہمت ہار رہے ہو؟ کیوں تنگ دل ہو رہے ہو؟ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ’’یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘. گھبراؤ نہیں وَ لَا تَہِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾ ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘. یہ تو تمہاری غلطی تھی جس پر غزوۂ اُحد میں تمہیں شکست کی صورت میں سزا دے کر ہم نے تمہیں سبق سکھایا ہے. ورنہ یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری پشت پر نہیں ہے، تمہارا مددگار اور حامی نہیں ہے.

یہ تو ابھی اندرون عرب کا معاملہ ہے، تمہیں تو ابھی قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کو تہ و بالا کرنا ہے. اگر آج تمہارا نظم اور ڈسپلن ڈھیلا رہا تو آئندہ کیا ہو گا. لہذا سبق سکھانا ضرور تھا. تمہارے اندر اس کے بغیر نظم کی اہمیت کا احساس کہاں سے آتا! اگر اللہ چاہتا تو اس خطا کو نظر انداز (condone) کر دیتا. وہ قادرِ مطلق ہے. وہ ا یسا کر سکتا تھا کہ تمہاری اس خطا کے باوجود تمہیں فتح دے دیتا. لیکن اس طرح تمہاری اُس موقع کی کمزوری اور غلطی کی اصلاح نہ ہوتی، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوتا. لہذا ایک وقتی سی شکست کی صورت میں ہم نے تمہیں مُتَنَبّہ کر دیا کہ اپنی صفوں (ranks) کا جائزہ لے لو، جہاں جہاں کمزوریاں ہیں انہیں دور کرنے کی فکر کرو، اپنی جمعیت کو اور مضبوط کرو، جو نئے نئے لوگ مشرف با ایمان ہوئے ہیں ان کی تربیت کی کمی کو دور کرو تاکہ یہ بھی اس طرح کُندن بن جائیں جیسے مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین اور السابقون الاولون انصار ___ تمام اہل ایمان کو نظم کی پابندی کا خوگر بناو. تم یہ سب کچھ کرلو تو تم سے استخلاف اور تمکن فی الارض کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پختہ وعدہ ہے (النور ۵۵:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۵

’’وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کیے ہیں انہوں نے نیک کام، البتہ پیچھے حاکم کر دے گا ان کو ملک میں جیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو اور جمادے گا ان کے لیے دین ان کا جو پسند کر دیا ان کے واسطے اور دے گا ان کو ان کے ڈر کے بدلے میں امن میری بندگی کریں گے شریک نہ کریں گے میرا کسی کو اور جو کوئی ناشکری کرے گا اس کے پیچھے سو وہ ہی لوگ ہیں نافرمان ‘‘