امتحان یقینا شدید تھا. نتیجتاً منافقین کے دلوں میں جو خبث، نجاست اور گندگی تھی، وہ اس ابتلاء و آزمائش کو دیکھ کر ان کی زبانوں پر آ گئی، جس کا ذکر قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کیا ہے وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا ﴿۱۲﴾ ’’اور جب کہنے لگے منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سب فریب تھا‘‘___ انہوں نے کہاکہ ہمیں تو دھوکا دے کر مَروایا گیا. ہم سے تو کہا گیا کہ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں تمہارے قدموں میں ہوں گی، جبکہ اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہم رفع حاجت کے لیے بھی باہر نہیں جا سکتے. کھانے کو کچھ نہیں. ہمارے باغات حملہ آوروں نے اجاڑ دیئے. چاروں طرف سے محاصرہ ہے، اندر کوئی چیز نہیں ہے. فاقوں پر فاقے آ رہے ہیں. غضب کی سردی نے الگ (۱) دل بَلیوں اچھلنا: بہت بے تاب ہونا، گھبرانا زندگی اجیرن کر رکھی ہے. منافقین کی یہ وہ باتیں ہیں جو ان کے دلوں سے اچھل کر زبانوں پر آ گئیں. ان باتوں کا تذکرہ سیرت النبی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور کتب احادیث میں ملتاہے.