ادھر مؤمنین صادقین کی کیفیت کیا تھی؟ ملاحظہ ہو وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ’’اور حقیقی مؤمنین کا اُس وقت حال یہ تھا کہ جب انہوں نے دشمنوں کے لشکروں کو دیکھا تو وہ پکار اُٹھے کہ یہی تو وہ بات ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول  نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور اللہ اور اس کے رسول  کی بات بالکل سچی تھی‘‘.

یہ کون سا وعدہ ہے جس کی طرف یہ صادق القول مؤمنین اشارہ کر رہے ہیں؟ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش و امتحان اور ابتلاء کے وعدوں کا ذکر آیا ہے. مثلاً سورۃ العنکبوت کی آیات ۲.۳ میں فرمایا: 

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾ 
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ سب اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں. اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں!‘‘
سورۃ البقرہ کی آیت ۱۵۵ میں فرمایا:

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ ’’اور ہم البتہ تم کو خوف و خطر اور بھوک او رمال و جان اور فصلوں کی تباہی میں مبتلا کر کے تمہارا امتحان لیں گے، جو ان حالات میں صبر کریں تو ان کو (اے نبی !) بشارت دے دیجئے‘‘.

چنانچہ غزوۂ احزاب کے مصائب کو دیکھ کر مؤمنین صادقین کے ذہن ان پیشگی تنبیہات کی طرف منتقل ہو گئے اور ان کی زبانوں پر فی الفور آ گیا 
ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ