خندق کی تیاری کا عجیب نقشہ

غزوۂ احزاب میں کفار ومشرکین کے لشکروں کا محاصرہ خاصا طول پکڑ گیا اور اس دوران اہل مدینہ پر بڑے ہی سخت قسم کے حالات پیش آئے. جب خندق کھودی جا رہی تھی تو نبی اکرم بھی اس کام میں بنفس نفیس شریک تھے اور پتھر اُٹھا اُٹھا کر خندق سے باہر پھینک رہے تھے. چونکہ ان دنوں شدید قحط کا عالم تھا لہذا صحابہ کرامؓ نے اپنے پیٹوں پر چادروں کے ساتھ کس کر پتھر باندھ رکھے تھے تاکہ کمریں دوہری نہ ہو جائیں. اس لیے کہ شدید بھوک کی وجہ سے معدہ تشنج میں آتا ہے. دراصل یہ اس معدے کو بہلانے کی ایک شکل ہے کہ اگر اس پر بھاری بوجھ باندھ دیا جائے تو اس کو وہ بھوک کا تشنج (Hunger Pain) نہیں ہوگا. اس موقع پر بعض صحابہ کرامؓ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کرتے اُٹھا کر اپنے پیٹ دکھائے اور عرض کیا کہ حضور اب فاقہ ناقابل برداشت ہو رہا ہے، ہم نے اسی لیے پیٹوں پر پتھر باندھ رکھے ہیں. اس پر نبی اکرم نے اپنا کرتہ اُٹھا کر دکھایا تو وہاں دو پتھر بندھے ہوئے تھے.

یہ دراصل حضرت سلمان فارسی ؓ کا مشورہ تھا کہ مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کھودی جائے. عرب تو جانتے ہی نہیں تھے کہ خندق کس بلا کا نام ہے. پرانی جنگوں میں دفاع کے جو طریقے اختیار کیے جاتے تھے ان میں شہر پناہ کے گرداگرد خندق کھودنے کا رواج بھی تھا. اہل ایران دفاع کے اس طریقہ سے بخوبی واقف تھے. ایران اور روم کی تو 
کئی سو سال سے جنگ چل رہی تھی. تاریخ دونوں کے مابین جھولا جھول رہی تھی. کبھی رومی ایران کے دارالسلطنت مدائن تک چڑھ دوڑتے تھے تو کبھی ایرانی ان کو ایشیائے کوچک میں دھکیل دیتے تھے. جب مدینہ میں خبر پہنچی کہ تین اطراف سے کفار و مشرکین کا بارہ ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کے لیے چلا آ رہا ہے تو حضرت سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا کہ مدینہ کو پشت پر رکھتے ہوئے خندق کھودی جائے تاکہ خندق کی وجہ سے دشمن براہِ راست مدینہ پر یورش نہ کر سکیں. چنانچہ خندق کھودنے کا کام تیزی سے شروع ہو گیا. یہ سخت سردی کا موسم تھا.

روایات میں خندق کی کھدائی کے وقت دو اشعار کا ذکر ملتا ہے. محبتِ الٰہی میں سرشار صحابہ کرامؓ اور ان کے سالارِ اعظم جناب محمد رسول اللہ  خندق کی کھدائی کے لیے اس سنگلاخ زمین پر جرأت مومانہ اور ہمت مردانہ کے ساتھ کدالیں چلا رہے تھے اور صحابہ کرامؓ ضرب لگاتے ہوئے کورس کے انداز میں کہتے جاتے تھے 
’’اَللّٰھُمَّ لَا عَیْشَ اِلَّا عَیْشُ الْاٰخِرَۃِ‘‘ ’’اے اللہ! آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے، آخرت کا عیش ہی اصل عیش ہے‘‘. گویا ان کے نزدیک اس وقت کی کلفتیں، تکالیف اور مصائب ہیچ ہیں، انہیں تو آخرت کی فوز و فلاح چاہیے. اور رسول اللہ  جو اب دے رہے تھے ’’فَاغْفِرِالْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃَ‘‘ اے اللہ! پس تو بخشش فرمادے ان انصار و مہاجرین کی!

دوسرا شعر جس کا تذکرہ روایات میں ملتا ہے وہ نظم جماعت کی اساس و بنیاد بیعت کے ضمن میں بہت اہم ہے. صحابہ کرامؓ ترانہ کے انداز میں کدالوں کی ضرب کے ساتھ یہ شعر پڑھ رہے تھے:

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَـقِیْنَا اَبَدًا!

’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد ( ) سے جہاد کی بیعت کی ہے. اب یہ جہاد اس وقت تک جاری رہے گا جس وقت تک جان میں جان ہے‘‘.

جسم و جان کا تعلق منقطع ہو جائے تو بات دوسری ہے. جب تک یہ تعلق باقی ہے 
جہاد جاری رہے گا. یہ ہے صحابہ کرامؓ کی جماعت کی وہ شان جس کی بنیاد بیعت ہے.