اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی مدد اور نصرت و تائید سے اہل ایمان کو اس نرغہ اور محاصرہ سے نجات دلائی جو بیس دن تک جاری رہا تھا. ایک شب بہت زبردست آندھی آئی جس سے کفار و مشرکین کے لشکر تلپٹ ہو گئے. اکثر خیمے اکھڑ کر آندھی کے ساتھ تتر بتر ہو گئے. بڑے بڑے چولہوں پر چڑھی ہوئی بڑی بڑی دیگیں تھیں، اُلٹ گئیں. ان چولہوں کی وجہ سے ان کے خیموں میں آگ لگ گئی. یوں سمجھئے کہ یہ ایک غیبی تدبیر تھی جس سے ان کے حوصلے اس درجہ پست ہو گئے کہ صبح تک تمام لشکر منتشر ہو چکا تھا. تمام قبائل اپنے اپنے علاقوں کی طرف کوچ کر گئے ___ اسی کا ذکر ہے. سورۃ الاحزاب کی آیت ۹ میں: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾ 
’’اے اہل ایمان! اللہ کا احسان یاد کرو جو تم پر ہوا، جب چڑھ آئیں تم پر فوجیں پھر ہم نے ان پر بھیج دی ہوا (آندھی) اور (فرشتوں کی) وہ فوجیں جو تم نے نہیں دیکھیں. اور اللہ تمہارے تمام اعمال کو دیکھنے والا ہے‘‘.

نبی اکرم نے چند اور تدابیر بھی اختیار فرمائی تھیں، لیکن ان کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے. ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اس غزوۂ احزاب کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کا امتحان لینا اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دینا مقصود تھا، تاکہ نظر آ جائے کہ کون کتنے پانی میں ہے! سب جان لیں کہ کون ان میں سے منافق ہیں اور کون وہ ہیں جو کڑی سے کڑی آزمائش اور سخت سے سخت امتحان میں بھی ثابت قدم رہ سکتے ہیں!! ___ جب یہ امتحان ہو گیا تو مدِّ مقابل دشمنوں کے لیے ایک آندھی اور فرشتوں کا ایک لشکر کافی تھا. کفار و 
مشرکین کا بارہ ہزار کیا بارہ لاکھ کا لشکر بھی ہوتا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی. ایک آندھی نے معاملہ تلپٹ اور تتر بتر کر دیا اور کفار و مشرکین جو ایک زبردست جمعیت کی شکل میں بڑے ارمانوں اور بڑی تیاریوں کے ساتھ دُور دراز کا سفر کر کے ہدایت کے چراغ کو بجھانے آئے تھے ایک ہی رات میں منتشر ہو گئے. معاملہ ختم ہو گیا اور صبح صادق سے قبل ہی ہر ایک نے اپنی اپنی راہ پکڑی. صبح مسلمانوں نے دیکھا تو میدان خالی تھا.