نبی اکرم ﷺ کا تاریخی ارشاد

اس موقع پر نبی اکرم  نے جو تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول  کو کتنی دور رس نگاہ اور کتنی بصیرت و فراست عطا فرمائی تھی. کسی انقلابی رہنما کے لیے یہ وصف (Quality) اشد ضروری ہے کہ وہ حالات پر صحیح صحیح نگاہ رکھے ___ چنداصولوں کو جان لینا اور ان کو بیان کرتے چلے جانا ہی سب کچھ نہیں. اس کے ساتھ ساتھ ایسی صلاحیت اور نگاہ دُور رَس کی بھی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ حالات کی نبض پر بھی ٹھیک ٹھیک ہاتھ ہو. صحیح اندازہ ہو کہ حالات کا رخ کیا ہے، وہ کدھر جا رہے ہیں! صحیح صحیح تشخیص (Assessment) ہو کہ ہم کتنے پانی میں ہیں اور ہمارا دشمن کتنے پانی میں ہے. اس کی طاقت کیا ہے! اس کے اور ہمارے اثرات کا تناسب کیا ہے! ظاہر بات ہے کہ ایک انقلابی عمل میں ان سب امور پر گہری نگاہ رکھنی ناگزیر ہے. اگر صرف ایک خانقاہ ہے اور اس میں لوگوں کی تربیت کرنی ہے تو اس کے لئے بھی ایک خاص صلاحیت درکار ہے. لیکن اس میں ان چیزوں پر نگاہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے. اسی طرح ایک دار العلوم ہے، جہاں درس دینا ہے، قرآن پڑھانا ہے، حدیث وفقہ پڑھانی ہے تو ان کاموں کے لئے ایک خاص صلاحیت کی ضرورت ہے، مگر وہاں بھی مذکورہ بالا امور پر نظر ہونی ضروری نہیں ہے. لیکن انقلابی عمل میں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ اس امر پر نگاہ ہو کہ انقلابی دعوت اور تحریک کو مختلف مراحل سے گزار کر کامیابی تک کیسے پہنچا دیا جائے. یہ شے دگر ہے. اس کے لئے اور قسم کی صلاحیتیں چاہئیں. اس کی ایک عظیم مثال ہے جو غزوۂ احزاب کے متصلاً بعد سیرتِ مطہرہ میں نظر آتی ہے.

غزوۂ احزاب کے موقع پر، جس کا دوسرا نام غزوۂ خندق بھی ہے، اگرچہ قریش بارہ ہزار کا لشکر لے آئے تھے، اور عرب کی حد تک اس وقت تک کی تاریخ میں اتنا بڑا لشکر پہلی بار جمع ہوا تھا، لیکن اب جو یہ لشکر منتشر ہوا اور بھیڑ چھٹی تو رسول اللہ  نے صحابہ کرام ؓ کو ان الفاظ میں خوش خبری سنا دی کہ 
لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِکُمْ ھٰذَا وَلٰکِنَّکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ ’’اس سال کے بعد اب قریش تم پر حملہ آور نہیں ہو سکتے بلکہ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے‘‘. میرے نزدیک سورۃ الصف بھی اسی موقع پر نازل ہوئی ہے جس میں یہ آیت مبارکہ موجود ہے وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾ ’’اور (اے مسلمانو!) ایک دوسری چیز جو تمہیں محبوب ہے، یعنی اللہ کی مدد، تو وہ آیا ہی چاہتی ہے اور اب فتح دور نہیں ہے(تمہارے قدموں کو چومنے والی ہے) اور اے نبی ! اہلِ ایمان کو بشارت سنا دیجئے‘‘. نبی اکرم نے جو یہ الفاظ فرمائے کہ لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِکُمْ ھٰذَا وَلٰکِنَّکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ تو راقم کے نزدیک یہ الفاظ حضور نے سورۃ الصف کے اس حکم وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کے امتثالِ (۱امر میں فرمائے تھے. واللہ اعلم!

نبی اکرم کو بخوبی اندازہ تھا کہ قریش نے کتنی محنتوں اور کوششوں سے اس عظیم لشکر کی تیاری کی ہو گی اور اپنے حلیف قبائل کو اپنا ساتھ دینے پر آمادہ کیا ہو گا. بنو غطفان، بنو فرازہ اور خیبر کے یہود کے قبائل کو آمادہ کرنے کے لئے کتنی سفارتیں بھیجی ہوں گی، کتنی خط وکتابت کی ہو گی اور اس کام کے لئے پیامبری کے سلسلہ میں کتنے سوا ر دوڑائے ہوں گے. یہ سارے پاپڑ بیل کر قریش نے اتنی طاقت جمع کی تھی اور اسے لے کر وہ مدینہ پر چڑھ دوڑے تھے، لیکن نتیجہ کیا نکلا! یہ کہ بے نیل ومرام واپس جانا پڑا، ساری محنتیں اور کوششیں اکارت گئیں. اتنی بڑی جمعیت … لیکن قدرتِ الٰہی کے سامنے اس کی حیثیت کیا تھی! اللہ تعالیٰ نے ایک آندھی بھیج دی اور ان کے تمام ارمان ملیا میٹ ہو گئے. حضور کواندازہ تھا (۱) حکم کی تعمیل کہ اس ہزیمت سے قریش کے حوصلے اس قدر پست ہو گئے ہیں کہ اب قریش یہ جرأت نہیں کر سکتے کہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کے متعلق سوچیں. لہذا حضور نے اہل ایمان کو بشارت سنا دی کہ اس سال کے بعدا ب قریش تم پر حملہ نہیں کر سکتے، بلکہ اب تم چڑھائی کر کے جاؤ گے، اب پیش قدمی تمہار ی طرف سے ہو گی. اب جنگ کے لئے اقدام ہماری طرف سے ہو گا جو اب تک قریش کے ہاتھ میں تھا. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات