اندرونِ عرب تکمیلِ انقلاب کی تمہیدفراستِ نبوی کا شاہکار اور  فتحِ مبین یعنی صلح حدیبیہ ذی قعدہ ۶ھ؁

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم 
خطبۂ مسنونہ ، تلاوت ِ آیاتِ قرآنی، احادیثِ نبوی اور ادعیۂ ماثورہ کے بعد: 

حضور  کا خواب

غزوۂ احزاب کے اگلے ہی سال ۶ھ میں رسول اللہ  نے خواب دیکھا کہ آپ اور آپ کے ساتھی اہل ایمان رضی اللہ عنہم عمرہ ادا کر رہے ہیں. چونکہ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے لہذا نبی اکرم  نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک غیبی اشارہ اور حکم سمجھ کر اعلان عام کرا دیا کہ ہم عمرہ کے لئے جائیں گے، جو ہمارے ساتھ جانا چاہیں وہ چلیں. جو صحابہ کرامؓ اُس وقت رسول اللہ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے تھے، وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وہ گویا موت کے منہ میں جا رہے ہیں. اس لئے کہ وہ اگرچہ عمرہ کی نیت سے جا رہے تھے، لیکن قریش کے نزدیک تو یہ ایک نوع کی چڑھائی تھی.

وہ عمرہ کے لئے اہل ایمان کو مکہ میں داخل ہونے دیں تو گویا یہ ان کے لئے اپنی رہی سہی ساکھ اور بچا کھچا وقار بھی ہمیشہ کے لئے خود اپنے ہاتھوں خاک میں ملانے کے مترادف تھا. یہ تو ان کے لئے ایک نوع کی شکست تھی کہ وہ مسلمانوں کو عمرہ ادا کرنے دیتے. اس کے بعد تو عرب میں ان کی کوئی حیثیت باقی نہ رہتی. حضور کے ساتھ چلنے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات میں چودہ سو سے لے کر دو ہزار تک کی تعداد کا ذکر ملتا ہے. تاہم زیادہ تر روایات کے مطابق تعداد چودہ سو تھی. ذوالحلیفہ کا مقام مدینہ سے تقریباً سات آٹھ میل باہر ہے. یہاں سے عمرہ یا حج کے لئے احرام باندھنے کی حد شروع ہو جاتی ہے. وہاں حضور اورآپ کے تمام ساتھیوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور ہدی (قربانی) کے جو جانور ساتھ تھے ان کے گلوں میں پٹے ڈال دئیے گئے، جو اِس بات کی علامت تھی کہ یہ جانور قربانی کے ہیں. ان کاموں سے فارغ ہو کرآپ نے مکہ کی طرف سفر جاری رکھا، حتیٰ کہ حدیبیہ کے مقام پر جا کر پڑاؤ کیا. اسی مقام پر نبی اکرم اور مشرکین قریش کے مابین وہ صلح ہوئی جو تاریخ میں ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور جسے قرآن حکیم نے سورۃ الفتح میں ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا ہے اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱