حدیبیہ میں جہاں نبی اکرم اور صحابہؓ کا پڑاؤ تھا، عروہ وہاں آئے. وہ بہت ہی زِیرک، دانا اور مدبر انسان تھے، آخر ثقیف کے سردار تھے، جو قریش کے بعد سب سے معزز قبیلہ شمار ہوتا تھا. انہوں نے وہاں پہنچ کر لشکر کے ماحول اور نظم و ضبط کا ایک اندازہ قائم (۱) عروہ بعد میں ایمان لے آئے تھے اور انہیں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا.(رضی اللہ عنہ) کرنے کے لئے بھرپور جائزہ لیا. پھر وہ نبی اکرم کے خیمہ میں حاضر ہوئے اور سب سے پہلے تو انہوں نے خوفزدہ کرنے کا انداز اختیار کرتے ہوئے کہا:

’’محمد ! ایک طرف قریش اور ان کے حلیف ہیں، ان کی پوری قوت مجتمع ہے اور ان کا فیصلہ ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، وہ اس پر تلے ہوئے ہیں. اب تم دیکھ لو کہ اگر جنگ ہوئی اور بالفرض تم نے مکہ والوں کو ختم کر دیا تو کیا یہ کوئی اچھی بات ہوگی؟ اس سے پہلے کیا کسی شریف انسان کی ایسی مثال موجود ہے کہ اس نے اس طرح اپنے ہی قبیلہ کو ختم کر دیا ہو؟ اوراگر معاملہ برعکس ہوا تو میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے ساتھ جو جمعیت ہے وہ تو مختلف قبائل سے آئے ہوئے لوگوں پر مشتمل ہے (گویا کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا والا معاملہ ہے). شکست اور ہزیمت کی صورت میں یہ سب تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، ان میں سے کوئی بھی تمہارے ساتھ کھڑا نہیں رہے گا‘‘.

عروہ بن مسعود کے پیش نظر چونکہ قبائلی نظام تھا اور وہ جانتے تھے کہ قبائل تو عمومًا قبائلی حمیت کے تحت لڑتے تھے، چنانچہ انہوں نے یہ بات اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہی تھی.
حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس موقع پر نبی اکرم کے ساتھ تھے. ان کو عروہ بن مسعود کی اس بات پر طیش آ گیا. ان کی زبان سے عروہ کے لئے ایک عریاں گالی نکل گئی اور انہوں نے کہا ’’کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم رسول اللہ  کو چھوڑ دیں گے. خدا کی قسم ہم ان کو چھوڑنے والے نہیں ہیں‘‘. گالی سن کر عروہ نے پوچھا یہ کون ہیں. بتایا گیا کہ یہ ابوبکرؓ ہیں تو عروہ نے کہا ’’ان کا مجھ پر ایک احسان ہے، ورنہ آج میں انہیں اس گالی کا جواب دیتا‘‘.
اس کے بعد عروہ نے نبی اکرم سے گفتگو کرتے ہوئے یہ گستاخانہ انداز اختیار کیا کہ بار بارحضور کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتے. وہ شاید یہ دیکھنا چاہتے ہوں 
کہ حضور کے بارے میں آپ کے ساتھیوں کا طرز عمل کیا ہے!حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بحیثیت محافظ وہاں کھڑے ہوئے تھے. انہوں نے عروہ کی بار بار کی یہ حرکت دیکھ کر اپنی تلوار کا دستہ ان کے ہاتھ پر مارا اور کہا کہ آئندہ یہ ہاتھ حضور کی ریش مبارک تک بڑھا تو قطع ہو جائے گا، واپس نہیں جا سکے گا بہرحال عروہ یہ گفتگو کر کے اور ایک اندازہ قائم کر کے واپس مکہ چلے گئے.