مکہ پہنچ کر عروہ بن مسعود نے قریش کے سرداروں کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اس سے ان کے اس تاثر کا اندازہ ہوتا ہے جو اہل ایمان کے لشکر کے نظم و ضبط، ان کے جوش و خروش اور ان کی فدائیانہ کیفیات کو دیکھ کر ان کے دل و دماغ پر مترتب ہوا تھا. انہوں نے کہا:

’’اے قریش کے لوگو! دیکھو، میں قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں گیا ہوں، میں نے ان کے دربار دیکھے ہیں، ان کا ٹھاٹھ باٹھ دیکھا ہے، لیکن خدا کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو اس کی اپنی قوم میں ایسا محترم نہیں دیکھا جیسا کہ محمد( ) کو اپنے اصحاب میں دیکھا ہے. میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جو لوگ محمد( ) کے ساتھ ہیں ان کو جتنی محبت محمد( )سے ہے اور جتنی عقیدت و توقیر اور عزت محمد( ) کی ان کے دلوں میں ہے، اور اپنے دین کی جو حمیت اور فدایانہ جذبہ ان کے دلوں میں ہے، وہ مجھے پوری زندگی میں کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آیا. میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ جب محمد( ) وضو کرتے ہیں تو لوگ ان کے وضو کا پانی تبرک کے طور پر لینے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں. اگر وہ تھوکتے ہیں یا ان کے دہن سے بلغم نکلتا ہے تو لوگ اسے جھپٹ لیتے ہیں اور اس کو اپنے ہاتھوں اور چہروں پر مل لیتے ہیں. یہ محبت میں نے کسی قوم میں اپنے سردار اور قائد حتیٰ کہ کسی بادشاہ تک کیلئے نہیں دیکھی. لہذا بہتری اسی میں 
ہے کہ تم ان سے مت بھڑو، ان سے جنگ کا ارادہ ترک کر دو اور مصالحت کرلو‘‘.