نبی اکرم نے حدیبیہ کے مقام پر مقیم ہونے کے بعد بدیل بن ورقہ خزاعی کے ذریعے پہلا پیغام بھیجا تھا، جس کے نتیجہ میں پہلے عروہ بن مسعودحضور کی خدمت میں گفتگو کے لئے آئے تھے اور اس کے بعد قریش کے چند مشتعل مزاج (Hawks) لوگ آپ کے پاس آئے، لیکن ان کا رویہ مصالحانہ نہیں تھا، بلکہ جارحانہ اور رعب ڈالنے والا تھا. اس پر نبی اکرم نے خود سلسلہ ٔجنبانی (۱شروع کرنے اور اپنے اصحاب ؓ میں سے کسی کو مکہ والوں کے پاس افہام و تفہیم کے لئے بھیجنے کا ارادہ فرمایا. سب سے پہلے آپ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ میرا خیال ہے آپ مکہ جائیں اور قریش سے مصالحت کی کوشش کریں. حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ حضور اب مکہ میں میرا کوئی ایسا رشتہ دار نہیں ہے جس کی امان و حمایت میں، میں مکہ میں داخل ہو سکوں. ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے دیکھتے ہی بغیر بات چیت کے قتل کر دیں. لہذا میں تجویز کرتا ہوں کہ میری بجائے عثمان ؓ بن عفان کو بھیجئے. ان کا قبیلہ بنو امیہ بہت مضبوط ہے. ان کے بہت سے قریبی رشتہ دار بھی (۱) رابطہ وہاں موجود ہیں جن میں سے کسی کی بھی امان و حمایت میں وہ مکہ میں داخل ہو سکتے ہیں. نبی اکرم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت عثمان ؓ بن عفان کو مکہ جانے کا حکم فرمایا. چنانچہ وہ تعمیل حکم میں مکہ کی طرف روانہ ہو گئے.