مسلمان مجھ سے بیعت کر کے ایک عہد کرے اس بیعت کے بارے میں دو روایات ہیں. ایک تو یہ کہ یہ بیعت علی الموت تھی. حضور نے فرمایا کہ ’’ہر مسلمان میرے ہاتھ پر موت کی بیعت کرے کہ چاہے ہم سب ہلاک ہو جائیں لیکن عثمان ؓ کے خون کا بدلہ لئے بغیر ہرگز یہاں سے نہیں ہٹیں گے. دوسری روایت ہے کہ اس بات پر بیعت لی گئی کہ ’’اَنْ لَا نَفِّرَ‘‘ یعنی ہم یہاں سے پیٹھ نہیں موڑیں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے. بہرحال اس بیعت کا مقصد یہ سامنے آتا ہے کہ کسی حالت میں پیٹھ نہیں دکھانی اور میدانِ جنگ سے جان بچا کر نہیں جانا. اگرچہ جان بچانے کی چند صورتیں وہ ہیں جن کی سورۃ الانفال میں اجازت دی گئی ہے اور انہیں جائز ٹھہرایا گیا ہے. مثلًا یہ کہ پینترا بدلنا مقصود ہو یا کسی جنگی حکمت عملی (strategy) کا تقاضا ہو کہ پیچھے ہٹ جایا جائے. مگر یہاں اس امر کا فیصلہ ہو گیا کہ کسی صورت میں بھی یہاں سے نہیں ہٹنا. اب یہاں سے کسی جنگی حکمت کے تحت پسپائی (strategic retreat) کا امکان بھی باقی نہیں رہا. رہا جان بچا کر فرار ہونے کا معاملہ تو یہ عمل گناہ کبیرہ میں شامل ہے ہی. گویا یہ بیعت علی الموت تھی کہ ہر شخص میدان میں ڈٹا رہے گا، صرف موت ہی اسے اس جنگ سے رَستگاری (۱دے سکے گی.