ترجمان وحی جناب محمد رسول اللہ  کی زبان مبارک سے حضرت عثمان ؓ کے بے شمار فضائل و مناقب مروی ہیں. ان کے علاوہ سیرت عثمانی ؓ کے متعدد واقعات آنجناب ؓ کی فضیلتوں پر دلالت کرتے ہیں. ان میں سے ایک خصوصی فضیلت یہ ہے کہ دو مواقع پر حضرت عثمانؓ کی عدم موجودگی کے باوجود حضور نے گویا ان ؓ کو موجود قرار دیا. پہلا موقع غزوۂ بدر کا ہے. آنجنابؓ کی اہلیہ اور نبی اکرم  کی لخت جگر حضرت رقیہ ؓ کافی علیل تھیں، اس لئے ان کی تیمار داری کے لئے حضور نے آنجناب ؓ کو مدینہ میں چھوڑ دیا تھا اور انہیں اس لشکر میں شامل نہیں فرمایا تھا جو اولًا تو ابوسفیان کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے کے لئے نکلا تھا، لیکن بالآخر غزوۂ بدر پر منتج ہوا تھا. نبی اکرم نے حضرت عثمان ؓ کو بدر کے مال غنیمت میں سے وہی حصہ مرحمت فرمایا جو دوسرے بدری صحابہ ؓ کو مرحمت کیا گیا تھا. گویا حضور نے آپؓ کو مجازی طور پر اس غزوہ میں شریک قرار دیا جبکہ حقیقی طور پر وہ اس میں شریک نہیں تھے. اس طرح کا دوسرا موقع حدیبیہ کے مقام پر پیش آیا. حضرت عثمانؓ چونکہ وہاں موجود نہیں تھے، لہذا نبی اکرم نے خود ہی اپنا ایک دست مبارک دوسرے دست مبارک کے اوپر رکھ کر ارشاد فرمایا کہ ’’یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے اور یہ عثمانؓ کی طرف سے بیعت ہے‘‘.

یہ درحقیقت حضرت عثمان ؓ کے فضائل میں بہت بلند مقام ہے اور یہ بہت بڑی سعادت ہے جو اس روز انؓ کو حاصل ہوئی. پھر یہ کہ نبی اکرم نے خون عثمانؓ کے قصاص کیلئے حدیبیہ کے مقام پر موجود تمام صحابہ کرامؓ سے جو بیعت لی یہ بھی انتہائی اعلیٰ مرتبہ ہے جو حضرت عثمان غنی ؓ کو (۱) رہائی ، نجات حاصل ہوا. یہ وہ بیعت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا مندی اور خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے. اس طرح بیعت رضوان کا یہ عظیم الشان واقعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام قرآن مجید میں ہمیشہ ہمیش کیلئے محفوظ فرما دیا ہے. 
آپ یہاں لکھنا شروع کر سکتے ہیں.