جب قریش نے ایک طرف یہ دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کسی دھمکی سے مرعوب ہونے والے نہیں ہیں، دوسری طرف ان کے حلیم الطبع اشخاص نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور قریش کے سامنے خون ریزی کے ہولناک نتائج رکھے تو بالآخر ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ اگر کوئی مصالحت ہو جائے تو بہتر ہوگا. لہذا آخرکار انہوں نے مصالحانہ گفتگو کے لئے سہیل بن عمرو کو حضورﷺ کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کیا، جن کا شمار ان کے بڑے متحمل اور مدبر سرداروں میں ہوتا تھا. چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ جب نبی اکرمﷺ کو خبر ملی کہ اس مرتبہ سہیل بن عمرو (۱) گفتگو کے لئے آئے ہیں توحضورﷺ نے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ قریش مصالحت پر آمادہ ہو گئے.