اس معاہدہ کی بعض شرائط نبی اکرم اور صحابہ کرامؓ کے لئے بظاہر نہایت سبکی کا باعث اور توہین آمیز تھیں. سہیل نے سب سے پہلے تو یہ شرط پیش کی کہ ہم یہ برداشت کر ہی نہیں سکتے کہ اس سال مسلمان عمرہ کریں. اس سال عمرہ کرنے کی اجازت دینے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ پورے عالم عرب میں یہ بات مشہور ہو جائے کہ محمد کی بات پوری ہوگئی اور قریش کو جھکنا پڑا اور ہتھیار ڈالنے پڑے. لہذا اس سال تو آپ کو یہیں سے واپس جانا ہوگا. البتہ اگلے سال آپ تشریف لے آئیے، ہم تین دن کے لئے مکہ کو خالی کر دیں گے، ہم پہاڑوں پر چلے جائیں گے اور مکہ آپ کی disposal پر ہوگا.آپ وہاں رہئے اور عمرہ کیجئے، مکہ والے وہاں رہیں گے ہی نہیں تاکہ کوئی شخص جذبات سے مشتعل ہو کر کوئی اقدام نہ کر بیٹھے. اس تصادم کے امکان کو بھی روک دیا جائے گا.

البتہ آپ کے ساتھ تلواریں اگر ہوں گی تو وہ نیام میں ہوں گی اور نیام بھی تھیلوں میں بند ہوں گے. تھیلے احرام کی حالت ہی میں ہاتھ میں رہیں گے. یہ نہیں ہوگا کہ تلواریں نیام میں ساتھ لٹکی ہوئی ہوں. دوسری شرط یہ تھی کہ دس سال تک ہمارے اورآپ کے مابین بالکل امن رہے گا، کوئی جنگ نہیں ہوگی. تیسری شرط یہ طے ہوئی کہ عرب کے دوسرے قبائل میں سے جو چاہے ہمارا حلیف بن جائے اور جو چاہے آپ کا حلیف بن جائے. فریقین کے حلیف بھی امن و امان سے رہیں گے اور ان کے مابین بھی جنگ و جدال بالکل نہیں ہوگی . بنو خزاعہ کے سردار بدیل بن ورقہ نے وہیں پر اعلان کیا کہ ہم محمد کے ساتھ ہیں. ایک دوسرا قبیلہ بنوبکر، جس کو بنو خزاعہ سے پرانی دشمنی تھی، اس نے فوراً دوسرا رُخ اختیار کر لیا کہ ہم اس معاہدہ کی رو سے قریش کے حلیف ہیں. معاہدہ کی چوتھی شرط مسلمانوں کے لئے بظاہر بہت توہین آمیز اور دل آزاری کا باعث تھی. وہ یہ کہ اگر مکہ کا کوئی شخص اپنے والی یا سرپرست کی اجازت کے بغیر مدینہ جائے گا تو مسلمانوں کو اسے واپس لوٹانا ہوگا، لیکن مدینہ سے اگر کوئی شخص مکہ آ جائے گا تو اسے ہم واپس نہیں کریں گے. یہ بڑی غیر منصفانہ (un-equal) شرط تھی جس پر سہیل بن عمرو کا اصرار تھا. صحابہ کرام ؓ اس پر بڑے جز بز (۱ہوئے اور ان کے جذبات میں جوش و ہیجان پیدا ہوا کہ ہم یہ صورت کیوں گوارا کر رہے ہیں؟ ہم دب کر اور گر کر کیوں صلح کریں؟ ہم اس وقت چودہ سو کی تعداد میں موجود ہیں اور ہمیں تو شہادت کی موت مطلوب ہے، ہم بیعت علی الموت کر چکے ہیں اور ہم سب کے سب کلمۂ حق کے لئے اپنی گردنیں کٹوانے کے لئے تیار ہی نہیں بے تاب ہیں. لہذا ہم ان شرائط پر صلح کیوں کریں جو سہیل منوانا چاہتے ہیں؟ یہ بظاہر احوال گر کر اور دب کر صلح کرنے کے مترادف معاملہ تھا . صحابہ کرامؓ کے یہ جذبات تھے لیکن سب کے سب مہر بلب (۲تھے.