اِدھر جذبات کا یہ عالم تھا اُدھر ان سلگتے ہوئے جذبات پر اس واقعہ نے تیل کا کام کیا کہ سہیل بن عمرو کے صاحبزادے ابوجندل ؓ بھی ایمان لا چکے تھے اور سہیل نے ان کو زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر ایک کوٹھڑی میں بند کر رکھا تھا.سہیل اور قریش کے دوسرے لوگ انؓ کو بہت مارا کرتے تھے تاکہ وہ اس تشدد سے گھبرا کر اپنے آبائی بُت پرستی کے دین کی طرف لوٹ آئیں. انہیںؓ جب پتہ چلا کہ نبی اکرمﷺ حدیبیہ کے مقام پر مقیم ہیں جو مکہ سے چودہ پندرہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے تو انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنی بیڑیاں تڑوائیں اور چھپتے چھپاتے حدیبیہ میں حضورﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے. ابھی اس معاہدہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اس موقع پر ابوجندل ؓ وہاں اس حالت میں پہنچے کہ ان کے ہاتھوں میں زنجیریں پڑی ہوئی تھیں، جسم پر تشدد کے نشان تھے. وہؓ آئے اور نبی اکرمﷺ کے قدموں میں لیٹ گئے. سہیل بن عمرو نے فوراً کہا یہ ہے پہلا معاملہ، صلح کی جو شرائط ہمارے مابین طے ہو چکی ہیں ان کے مطابق آپﷺ ابوجندلؓ کو میرے حوالے کر دیجئے.
حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’شرائط ضرور طے ہو گئی ہیں لیکن تم ان کو تو ہمارے ساتھ رہنے کی اجازت دے دو‘‘. سہیل نے کہا ’’قطعًا نہیں، اسے آپ کو بہرصورت واپس کرنا ہو گا‘‘.حضورﷺنے پھر فرمایا ’’سہیل تم اس کو یہیں رہنے دو‘‘. اس نے فوراً کہا کہ ’’پھر ہمیں کوئی صلح نہیں چاہئے، صلح کی شرائط کالعدم سمجھئے، اب تلوار ہی ہمارے درمیان فیصلہ کرے گی‘‘. حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’اچھا تم نہیں مانتے تو ٹھیک ہے، صلح کی شرائط باقی رہیں گی، جنگ سے صلح بہتر ہے‘‘. ادھر ابوجندل ؓ چیخ رہے ہیں اور اب انہوں نے خیمہ میں موجود مسلمانوں سے استغاثہ (۱) کیا کہ ’’مسلمانو! مجھے کن بھیڑیوں کے حوالہ کر رہے ہو؟‘‘ اندازہ کیجئے اُس وقت جذبات کا کیا عالم ہوگا! سب کے دل مجروح تھے لیکن جوش سے لبریز تھے. سینوں میں دل بے تاب تھے کہ رسول اللہ ﷺ کا ذرا سا بھی اشارہ ہو جائے تو (۱) فریاد تلواریں نیام سے نکل آئیں واقعہ یہ ہے کہ یہ مرحلہ صحابہ کرامؓ کی اطاعت شعاری کا بڑا کڑا، بڑا شدید اور بڑا نازک امتحان تھا جس سے اللہ تعالیٰ ان کو گزار رہا تھا.