اب جبکہ صلح ہو گئی، اس پر دستخط ثبت ہو گئے اور سہیل واپس چلے گئے تو نبی اکرم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ ’’اب اٹھو، قربانی کے لئے جو جانور ساتھ لائے ہو ان کی یہیں پر قربانیاں دے دو اور احرام کھول دو‘‘. اُس وقت مسلمانوں کے جذبات کا جو عالم تھا اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا.ہوا یہ کہ ان میں سے ایک شخص بھی نہیں اٹھا.جذبات کی یہ کیفیت تھی کہ گویا ان کے اعصاب و اعضاء بالکل شل ہو گئے اور ان میں حرکت کرنے کی بھی طاقت نہیں رہی، ان کے دل اس درجہ بجھے ہوئے تھے. ان کا جوش و خروش تو یہ تھا کہ وہ جان نثاری اور سرفروشی دکھائیں اور اللہ کے دین کی راہ میں گردنیں کٹوا کر سرخرو ہو جائیں، جیساکہ سورۃ الاحزاب میں وارد ہے:

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾ 
’’اہل ایمان میں کتنے جواں مرد ہیں کہ جنہوں نے جو عہد اپنے پروردگار سے کیا تھا اسے پورا کر دکھایا. پس ان میں وہ بھی ہیں جو اپنا ہدیہ جان پیش کر چکے (اپنی نذر اللہ کے حضور میں گزار چکے) اور کتنے ہیں جو منتظر ہیں (کہ کب ہماری باری آئے اور ہم بھی جانیں دے کر سرخرو ہو جائیں) اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘.

معلوم ہوا کہ اُس وقت حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ سے جو جذباتی کیفیت صادر ہوئی وہ صرف ان دونوں کی نہیں تھی بلکہ تمام مسلمانوں کی تھی. سب ہی دل شکستہ تھے. یہ منظر ناقابل تصور ہے کہ نبی اکرم حکم دے رہے ہیں کہ ’’اٹھو! قربانیاں دے کر احرام کھول دو‘‘ اور کوئی ایک شخص بھی نہیں اٹھ رہا.آپ نے دوسری مرتبہ حکم دیا کہ ’’اٹھو، یہیں قربانیاں کرو اور احرام کھول دو‘‘ مگر پھر بھی کوئی نہیں اُٹھا. صحابہؓ کے ذہن میں تو یہ تھا کہ ہم مکہ جائیں گے، کعبہ کا طواف اور سعی کریں گے اور پھر قربان گاہ میں قربانیاں کریں گے.جو جانور ساتھ ہیں وہ تو ہدی ہے کعبہ کی .اب یہاں پر ہم قربانیاں کیسے کر دیں. حضور نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا ’’اٹھو، قربانیاں دے دو اور احرام کھول دو‘‘ مگر کسی نے جنبش نہیں کی. یہ اس لئے ہوا کہ صحابہ کرامؓ کی جذباتی کیفیت ایسی تھی کہ وہ اس صورتِ حال کے لئے ذہنًا تیار نہیں تھے. وہ اپنی جانیں دینے اور گردنیں کٹوانے کے لئے تو تیار تھے، لیکن جن شرائط پر صلح ہوئی تھی اسے ان کے اعصاب اور مزاج قبول نہیں کررہے تھے.