صحابہ کرام ؓ نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو اب سب کے سب کھڑے ہو گئے، جو حضرات ہدی کے جانور ساتھ لائے تھے انہوں نے قربانیاں دیں اور تمام صحابہ کرام ؓ نے حلق یا قصر کرایا اور احرام کھول دئیے.

اس صورت حال کی تاویل یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ پر ابھی تک ایک حالت منتظرہ طاری تھی. وہ اس خیال میں تھے کہ شاید صورت حال بدل جائے. شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی وحی آ جائے!! جب تک یہ صورت سامنے نہیں آئی کہ نبی اکرم نے خود قربانی دینے اور حلق کرانے کے بعد احرام کھول دیا تو اُس وقت تک ان کے ذہنوں میں صورت حال کی تبدیلی کا ایک امکان برقرار تھا کہ جس کے وہ شاید انتظار میں تھے. لیکن جب نبی نے احرام کھول دیا تو صحابہ کرامؓ جان گئے کہ یہی آخری فیصلہ ہے. چنانچہ حالت منتظرہ ختم ہو گئی اور سب نے احرام کھول دئیے. عمرہ کی جو نیت کی ہوئی تھی اسے اگلے سال کے لئے مؤخر کرتے ہوئے نبی اکرم اور تمام صحابہ کرام ؓ نے حدیبیہ سے مدینہ کی طرف مراجعت فرمائی.