نبی اکرم نے معاہدہ کی شرط کے مطابق اور سہیل بن عمرو کے اصرار پر ابوجندلؓ کو کفار کے حوالہ کر دیا تھا. کچھ دنوں کے بعد وہؓ اپنی قید سے دوبارہ نکلے. مدینہ منورہ تو اس لئے نہیں گئے کہ انہوںؓنے اچھی طرح جان لیا تھا کہ نبی اکرم تو معاہدہ کی وجہ سے پابند ہیں لہذا آپ تو مجھے دوبارہ واپس بھجوا دیں گے. چنانچہ انہوں نے بحیرہ احمر کا رخ کیا اور ساحل کے قریب جنگل میں پناہ لی. اس کے بعد ایک اور صحابی عتبہ بن اسیدؓ جو اپنی کنیت ابوبصیر کے حوالے سے زیادہ مشہور ہیں، وہ بھی مکہ والوں کی قید سے چھٹکارا پا کر مدینہ پہنچے. ان کے مدینہ پہنچتے ہی مکہ سے دو اشخاص ان کے پیچھے پہنچے اورحضور سے مطالبہ کیا کہ ابوبصیرؓ کو اپنے معاہدے کی رُو سے ہمارے حوالے کیجئے. نبی اکرم نے حضرت ابوبصیرؓ کو واپس جانے کا حکم دیا اور انہیںؓ ان دونوں ایلچیوں کے حوالے کر دیا. ابھی یہ تینوں ذوالحلیفہ ہی پہنچے تھے کہ ابوبصیرؓ نے موقع پا کر انہی دو میں سے ایک کی تلوار پر قبضہ کر کے اس کی گردن اڑا دی. دوسرا مدینہ کی طرف سرپٹ بھاگا. پیچھے پیچھے ابوبصیرؓ بھی مدینہ پہنچ گئے.

مکہ والاحضور سے فریاد کر رہا تھا کہ ابوبصیرؓ نے آ کر عرض کیا :حضور آپ نے تو اپناوعدہ پورا کر دیا تھا، میں نے تو اب ایک کو قتل کر کے آزادی حاصل کی ہے. نبی اکرمنے فرمایا کہ یہ شخص پھر کہیں جنگ کی آگ نہ بھڑکا دے، کوئی ہے جو اس کو قابو میں کرے! یہ سننا تھا کہ ابوبصیرؓ وہاں سے بھاگے اور مدینہ سے نکل کر بحر احمر کے ساحلی جنگل میں جا کر حضرت ابو جندلؓ کے ساتھ مل گئے. اس کے بعد جب مکہ کے بے کس اور مظلوم مسلمانوں کو پتہ چلا کہ جان بچانے کا ایک دوسرا ٹھکانا بن گیا ہے تو چوری چھپے مکہ سے فرار ہو کر مدینہ کا رخ کرنے کے بجائے یہاں پناہ کیلئے پہنچنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور تھوڑے ہی دنوں میں وہاں ایک اچھی خاصی جمعیت فراہم ہو گئی. اب انہوں نے قریش کے ان تجارتی قافلوں پر جو شام کیلئے بحر احمر کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے تھے حملے شروع کر دیئے اور قافلوں کو لوٹنا شروع کر دیا، اس لئے کہ یہ لوگ مدینہ میں تو تھے نہیں لہذا حضور کی صلح کی شرائط کے پابند نہیں تھے. تجارتی قافلوں کے یہ راستے قریش کی معیشت کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتے تھے. ان لوگوں کے حملوں اور لوٹ مار کے ہاتھوں مجبور ہو کر قریش کا ایک وفد ان کی طرف سے تحریر لے کر مدینہ آیا کہ معاہدہ کی اس شرط کو ہم خود واپس لیتے ہیں. اب مکہ سے جو بھی آپ کے پاس مدینہ آ کر آباد ہونا چاہے وہ آ سکتا ہے، ہم اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کریں گے.آپ ابو جندل ؓ ابوبصیرؓ اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ بلا لیجئے. حضور نے ان کو فرمان بھیجا اور وہ سب کے سب مدینہ آ کر آباد ہو گئے اور قریش کے قافلوں کا راستہ بدستور محفوظ و مامون ہو گیا.

الغرض کہ صلح کی اس شق سے جو اہل ایمان کو سب سے زیادہ شاق گزری تھی خود قریش کو تائب ہونا پڑا. گویا 
اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ کا ایک نظارہ بہت ہی جلد مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیااور نبی اکرم نے حدیبیہ کے مقام پر حضرت ابوجندلؓ کو واپس کرتے ہوئے جو الفاظ مبارکہ فرمائے تھے کہ یا ابا جندلؓ اصبر واحتسب، فان اللہ جاعلٌ لک ولمن معک من المستضعفین فرجاً ومخرجاً ’’اے ابو جندل! صبر اور ضبط سے کام لو، اللہ تمہارے لئے اورتمہارے ساتھ دوسرے ضعیفوں اور مظلوموں کے لئے کوئی راہ نکال دے گا‘‘ تو نبی اکرم کا یہ ارشاد گرامی ایک حقیقی واقعہ کی شکل میں متشکل ہو کر نگاہوں کے سامنے آ گیا.