خالد بن ولید اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما کا قبول اسلام

صلح حدیبیہ کو اللہ تعالیٰ نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا ہے، لیکن یہ اجسام کی نہیں قلوب کی فتح و تسخیر کا معاملہ تھا. اس مرحلہ پر اسلام کو اپنی دعوت کی اشاعت کے لئے امن درکار تھا جو اس صلح سے حاصل ہو گیا. دعوتِ توحید کی وسعت کو دیکھ کر خود قریش یہ سمجھنے لگے تھے کہ یہ ہماری شکست اور جناب محمد رسول اللہ  کی فتح ہے. صلح حدیبیہ سے قبل قریش اور اہل ایمان کے مابین ہونے والے معرکوں میں قریش کی صفوں میں ایک جنگجو اور باصلاحیت شہسوار کی حیثیت سے خالد بن ولیدؓ کا نام ممتاز نظر آتا ہے. جنگ کے دوران گھڑ سوار دستوں کی قیادت انہی کے سپرد رہتی تھی. غزوۂ احد کے موقع پر ان ہی کی تدبیر سے قریش کی شکست فتح میں بدل گئی تھی اور مسلمانوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا. حدیبیہ کے موقع پر بھی قریش نے گھڑ سواروں کا ایک دستہ ان کی زیر کمان نبی اکرم کا راستہ روکنے کے لئے بھیجا تھا.آپ کو اطلاع مل گئی اورآپ نے راستہ بدل دیا، ورنہ خالد بن ولیدؓ توحضور کا راستہ روکنے کے لئے رابغ سے بھی آگے نکل گئے تھے.حضورنے مسلمانوں کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر قیام کیا. صحابہ کرام ؓ نے جگہ جگہ پڑاؤ ڈال رکھے تھے. خالد بن ولید ؓ کو جب پتہ چلا تو وہ بھی اپنے گھڑ سواروں کے دستہ کے ساتھ پلٹ کر حدیبیہ پہنچ گئے.

یہاں پہنچ کر خالد بن ولیدؓ کی طرف سے ایک انوکھے طرز عمل کا مظاہرہ ہوا. یہ ایک ایسے پڑاؤ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ کرامؓ میں سے دو اڑھائی سو کی نفری فروکش تھی. خالد ؓ نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح یہ اہل ایمان مشتعل ہو جائیں اور کسی مسلمان کا ایک مرتبہ ذرا ہاتھ اُٹھ جائے. قریش کی کچھ روایات تھیں جن سے انحراف خالدؓ کے لئے ممکن نہ تھا. چونکہ نبی اکرم اور صحابہ کرام ؓ احرام کی حالت میں تھے اور ان کی قدیم روایات چلی آ رہی تھیں کہ مُحرِم (۱پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، اس لئے خالد بن ولیدؓ جنگ کی پہل نہیں کرنا چاہتے تھے. لیکن انہوں نے اشتعال انگیزی کی حتی الامکان کوشش کی. وہ اپنے گھوڑے لے کر بار بار صحابہ ؓ کی اس جماعت پر ایسے چڑھ چڑھ کر آئے جیسے ان کو گھوڑوں کے سموں سے کچل دیں گے. انہوں نے کئی بار اس عمل کو دہرایا، لیکن جو حکم تھا جناب محمد رسول اللہ  کا صحابہ کرام ؓ اس پر کار بند رہے. نہ کوئی ہراساں ہوا، نہ کوئی بھاگا اور نہ ہی کسی نے مدافعت کے لئے ہاتھ اٹھایا. نظم و ضبط کے اس مشاہدہ کا خالد بن ولیدؓ پر اتنا گہرا اثر ہو چکا تھا کہ وہ زیادہ دیر تک مزاحمت نہیں کر سکے اور ان کا گھائل دل بالآخر مُسَخّر ہوا، جس کا ظہور صلح حدیبیہ کے بعد ہوا اور وہ مشرف بہ ایمان ہونے کے لئے عازمِ مدینہ ہوئے. ایمان (۱) جس نے احرام باندھا ہو. لانے کے بعد یہی خالد بن ولیدؓ ’’سَیْفٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ‘‘ قرار پائے.

حضرت خالد بن ولیدؓ جب سوئے مدینہ چلے تو راستہ میں حضرت عمرو بن العاصؓ مل گئے جو قریش کے ایک اعلیٰ مدبر، شجاع و دلیر اور فنون حرب کے بہت ماہر تسلیم کئے جاتے تھے. یہی وہ صاحب تھے جن کو ۵ نبوی میں حبشہ ہجرت کر جانے والے مہاجرین کی بازیابی کے لئے قریش نے سفیر بنا کر جناب نجاشی ؒ کے دربار میں حبشہ بھیجا تھا. حضرت خالدؓ نے دریافت کیا کہ کہاں کا قصد ہے؟ بولے اسلام قبول کرنے کے لئے مدینہ جا رہا ہوں. میرے دل نے تسلیم کر لیا ہے کہ محمد  اللہ کے رسول برحق ہیں اور اسلام اللہ کا نازل کردہ دین ہے. حضرت خالدؓ نے کہا اپنا بھی یہی حال ہے. چنانچہ قریش کے یہ دونوں مایہ ناز اور جلیل القدر فرزند بارگاہِ نبوی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں حاضر ہوئے اور دولت ایمان سے مشرف ہوئے. اور اس طرح وہ جوہر جو اُس وقت تک اسلام کی مخالفت میں صرف ہو رہا تھا، اب اسلام کی محبت اور اس کی اشاعت و توسیع میں صرف ہونے لگا. حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت عمرو بن العاص ؓ نے دورِ نبوت اور بعد ازاں دورِ خلافت صدیقی و فاروقی میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ رہتی دنیا تک بھلائے نہیں جا سکتے. اول الذکر کا دنیا کے عظیم ترین جرنیلوں میں شمار ہوتا ہے. دورِ صدیقی میں فتنہ ارتداد کی سرکوبی میں انہوں نے ہی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا. اسی طرح کسریٰ پر ابتدائی کاری ضرب انہیؓ کے ہاتھوں لگی اور انہیؓ کے ہاتھوں قیصر کی سلطنت میں سے شام کا ملک اسلامی قلمرو (۱میں شامل ہوا اور آخر الذکر مصر کے فاتح ہوئے. ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان دو عظیم انسانوں کا قبول اسلام دراصل صلح حدیبیہ ہی کے ثمرات کا مظہرتھا.

اس صلح حدیبیہ کے ثمرات و فوائد بہت سے ہیں، مختصراً یہ کہ درحقیقت یہ صلح حدیبیہ ہی فتح مکہ کی تمہید بنی. نبی اکرم کو ۶ھ سے ۸ھ تک امن و سکون کے جو دو سال ملے اس میں توحید کی انقلابی دعوت نے نہایت سرعت کے ساتھ وسعت اختیار کی اور مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت فراہم ہو گئی. (۱) مملکت، سلطنت