اگلے سال ذیقعدہ ۷ھ میں نبی اکرمﷺ نے عمرۂ قضا ادا فرمایا.آپﷺ نے اعلان کرا دیا کہ جو اصحاب پچھلے سال حدیبیہ میں موجود تھے ان میں سے کوئی رہ نہ جائے، سب کے سب چلیں. چنانچہ اس دوران جو لوگ فوت ہو گئے تھے ان کے سوا سب نے آپﷺ کی پکار پر لبیک کہا اور عمرے کی سعادت حاصل کی. صلح حدیبیہ میں طے شدہ شرط کے مطابق نبی اکرمﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جِلَو میں حالت احرام میں مکہ تشریف لائے. حضورﷺ اور صحابہ کرامؓ باآوازِ بلند تلبیہ کہتے ہوئے حرم شریف کی طرف بڑھے. حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری ؓ نبی اکرمﷺ کے اونٹ کی مہار پکڑے یہ رجز پڑھتے جاتے تھے. ان اشعار کو امام ترمذی ؒ نے شمائل میں نقل کیا ہے:
خلُّوا بنی الکفار عن سبیلہ
الیوم نضربکم علی تنزیلہ
ضربا یزیل الھام عن مقیلہ
ویذھل الخلیل عن خلیلہ
’’ کافرو!آج سامنے سے ہٹ جاؤ. آج تم نے اترنے سے روکا تو ہم تلوار کا وار کریں گے. وہ وار جو سر کو خوابگاہِ سر سے الگ کر دے اور دوست کے دل سے دوست کی یاد بھلا دے‘‘.
صحابہ کرامؓ کا جم غفیر تھا اور وہ کعبہ شریف کی دید سے شاد کام (۱) ہو رہے تھے اور عمرہ ادا کرنے کی تمنا و آرزو کو پورے جوش و خروش اور چشم تر سے بجا لا رہے تھے. شرط کے مطابق حضورﷺاور صحابہؓ تین دن تک مکہ میں مقیم رہے. قریش کے تمام بڑے بڑے لوگ مکہ سے نکل گئے کہ نہ ہم اہل ایمان کو دیکھیں نہ ہمارا خون کھولے اور نہ اس کے نتیجے میں کوئی تصادم اور حادثہ وقوع پذیر ہو. لہذا وہ سب کے سب پہاڑوں پر چلے گئے.