قریش کی شکست خوردگی

حقیقی نہیں تو معنوی طور پر یہ قریش کی زبردست شکست تھی اور حضور اور صحابہؓ کے ادائے عمرہ سے ان کی ساکھ کو بڑا شدید نقصان پہنچا تھا. کیونکہ اُس وقت صورت حال یہ تھی کہ اگرچہ عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت نہیں تھی لیکن پورے عرب کی سیاسی، مذہبی اور معاشی سیادت و قیادت قریش کے ہاتھ میں تھی. گویا باقاعدہ اور تسلیم شدہ نہ سہی لیکن بظاہر احوال درحقیقت (de facto) قریش کو پورے عرب پر ایک نوع کی حکمرانی حاصل تھی. اگرچہ کوئی باضابطہ اعلان شدہ (declared) حکومت نہیں تھی اور کوئی تحریری معاہدہ یا دستور و آئین موجود نہیں تھا.

اس لئے کہ وہاں قبائلی نظام تھا، لیکن قدیم روایات موجود تھیں جس کے مطابق معاملہ چل رہا تھا. جیسا کہ آج تک برطانیہ کا کوئی تحریری دستور (Written Constitution) موجود نہیں ہے، بلکہ روایات کی بنیاد پر ان کا معاملہ چل رہا ہے، کم و بیش یہی معاملہ اہل عرب کا تھا، جس کی رُو سے گویا قریش عرب کے حکمران تھے.کعبۃاللہ کے (۱) خوش ہونا باعث مذہبی سیادت ان کے پاس تھی. معاشی اعتبار سے نہایت خوشحال تھے. ان کے قافلوں پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا تھا، اس لئے کہ ہر قبیلہ کا ’’خدا‘‘ بُت کی شکل میں بطور یرغمالی قریش کے پاس رکھا ہوا تھا. چنانچہ قریش کو پورے عرب پر جو سیادت و قیادت حاصل تھی وہی اسلامی انقلاب کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی. لہذا یہ وجہ تھی کہ ہجرت کے بعد نبی اکرم نے سب سے زیادہ ان ہی کے خلاف اقدامات فرمائے.


اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلماتآپ یہاں لکھنا شروع کر سکتے ہیں.