غزوۂ احد کے بعد اسی نوع کا معاملہ ربیع الاول ۴ھ میں یہود کے دوسرے قبیلے بنونضیر کے ساتھ ہو گیا. یہ قبیلہ عرب کے ایک مضبوط قبیلہ ’’طے‘‘ کا حلیف تھا. قبیلہ طے کے اشرف نے اس یہودی قبیلہ کے سردار ابو رافع کی لڑکی سے شادی کی تھی. ابو رافع کا لقب (۱) عہد توڑنا (۲) مہربانی تاجر الحجاز تھا، کیونکہ وہ بڑا مالدار تھا. کعب اسی اشرف کا بیٹا اور ابو رافع کا نواسہ تھا. اس دو طرفہ رشتہ داری کی وجہ سے اس کا یہود اور عرب سے برابر کا تعلق تھا. یہ بڑا قادر الکلام شاعر تھا، جس کی وجہ سے اس کا اثر گہرا تھا. کعب بن اشرف کو اسلام سے سخت عداوت تھی. یہی وجہ ہے کہ غزوۂ بدر میں قریش کے سرداروں کے قتل ہونے کا اسے نہایت صدمہ تھا.

چنانچہ یہ مکہ گیا اور مقتولین بدر کے پُر درد مرثیے پڑھے جن میں انتقام کی ترغیب تھی. وہ یہ مرثیے بہت سوز کے ساتھ پڑھتا، خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا. الغرض قریش کو مدینہ پر انتقامی طور پر چڑھائی کرنے کی ترغیب میں اس نے نہایت مؤثر کردار ادا کیا تھا. پھر جب وہ مدینہ واپس آیا تو نبی اکرم کی ہجو کہنے لگا اور یہودیوں کو اسلام کے خلاف بھڑکانے لگا. اس کے ساتھ ساتھ اپنی دولت مندی کے بل پر منافقین کو اپنا ہم خیال بنانے لگا اور ضعیف الایمان لوگوں پر اثر انداز ہونے لگا. اس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سازش تیار کی کہ چپکے سے نبی اکرم کو قتل کرا دے. چنانچہ اس نے ایک روز آپ کو دعوت میں بلایا اور اپنے چند لوگوں کو مقرر کر دیا کہ وہ یک بارگی حملہ کر کے حضور کو شہید کر دیں. اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنے نبی  کو اس سازش سے مطلع فرما دیا. اس کی فتنہ انگیزی کو دیکھ کر حضرت بن مسلمہؓ نے اس کو قتل کر دیا. اس واقعہ نے بنو نضیر میں غیظ و غضب کی آگ کو مزید بھڑکا دیا.

مزید برآں وادی نخلہ میں قبیلہ بنوعامر کے جو دو اشخاص قتل ہوئے تھے ان کا خون بہا ابھی تک واجب الادا تھا. اس کا ایک حصہ معاہدے کی رو سے یہود کے قبیلے بنی نضیر پر باقی تھا. اس کے مطالبہ کے لئے نبی اکرم بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے. انہوں نے تھوڑی سی رد و قدح کے بعد بظاہر حضور کی بات تسلیم کر لی. لیکن انہوں نے درپردہ ایک شخص کو مقرر کر رکھا تھا کہ وہ چپکے سے حضور پر بالاخانہ سے پتھر گرا دے. اس لئے کہ حضور بالاخانہ کی دیوار کے سایہ میں کھڑے گفتگو فرما رہے تھے. حضور کو اس سازش کا علم ہو گیا اور آپ فوراً مدینہ واپس چلے آئے.

ادھر قریش کی جانب سے بنونضیر کے پاس پیغام پرپیغام آرہے تھے کہ محمد( ) کو 
قتل کر دو، ورنہ ہمیں جب بھی موقع ملا، جو ضرور مل کر رہے گا، تو ہم تمہارے پورے قبیلہ کو تہ تیغ کر دیں گے. یہود خود بھی نبی اکرم کی دعوتِ توحید کا فروغ دیکھ کر انگاروں پر لوٹ رہے تھے. انہوں نے ایک سازش کے تحت نبی اکرم کو پیغام بھیجا کہ آپ اپنے تیس اصحابؓ کو ساتھ لے کر آئیں، ہم بھی اپنے علماء و احبار کو جمع کر رکھیں گے. آپ کی دعوت اور آپ پر نازل شدہ کلامِ الٰہی سن کر اگر ہمارے علماء تصدیق کر دیں گے تو ہم اسلام قبول کر لیں گے. اس پر آپ نے کہلا بھیجا کہ جب تک تم ایک نیا معاہدہ لکھ کر نہ دو میں تم پر اعتماد نہیں کر سکتا. لیکن بنو نضیر اس کے لئے آمادہ نہیں ہوئے.

اسی دوران رسول اللہ  بنوقریظہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے تجدید معاہدہ کی فرمائش کی. انہوں نے تعمیل کر دی. اب بنو نضیر کے سامنے گویا ایک نظیر موجود تھی، لیکن اس کے باوجود وہ کسی طرح دوبارہ معاہدہ کے لئے آمادہ نہیں ہوئے. آخر کار انہوں نے پیغام بھیجا کہ آپ تین آدمی لے کر آئیں، ہم بھی اپنے تین عالم لے کر آتے ہیں اور کسی درمیانی جگہ جمع ہوتے ہیں. یہ علماء اگر آپ پر ایمان لے آئے تو ہم بھی ایمان لے آئیں گے. رسول اللہ  اس کے لئے تیار ہو گئے، لیکن راستے ہی میں آپ کو باوثوق ذریعہ سے اطلاع مل گئی کہ بنو نضیر نے خفیہ طور پر انتظام کر رکھا ہے کہ آپ جب مقررہ مقام پر پہنچیں تو یکبارگی اور اچانک حملہ کر کے آپ کو شہید کر دیں. چنانچہ یہ اطلاع ملنے کے بعد حضور راستہ ہی سے واپس چلے گئے. آپ نے پھر ان کو پیغام بھیجا کہ یا تو تجدید معاہدہ کر لو یا اپنے سرکردہ علماء کو لے کر میرے پاس آ جاؤ. لیکن بنو نضیر نے صاف انکار کر دیا. 

بنو نضیر کی اس سرکشی کے مختلف اسباب تھے. وہ دو مضبوط قلعوں میں پناہ گزین تھے جہاں اجناس، پانی اور اسلحہ کا وافر ذخیرہ موجود تھا. ایک سبب یہ بھی تھا کہ عبداللہ بن اُبی نے انہیں کہلا بھیجا تھا کہ ہم (یعنی منافقین) اور بنوقریظہ تمہارا پوراپورا ساتھ دیں گے، لہذا تم اطاعت نہ کرنا. اس صورت حال کے پیش نظر نبی اکرم نے ان کو زیادہ مہلت دینی مناسب نہیں سمجھی اور ان کے قلعوں پر چڑھائی کر دی. پندرہ دن تک محاصرہ جاری رہا. بنو نضیر اس انتظار میں رہے کہ عبداللہ بن اُبی اور بنوقریظہ اپنا وعدہ وفا کریں گے، لیکن دونوں دم سادھے تماشا دیکھتے رہے. بالآ خر بنوقریظہ نے یہ پیش کش کی کہ ہمارے ساتھ بھی بنو قینقاع والا معاملہ کیا جائے. نبی اکرم کی رافت و رحمت نے یہ پیش کش منظور فرما لی. بنو نضیر اپنی گڑھیوں سے اس شان سے نکلے کہ جشن کا گمان ہوتا تھا. عورتیں دف بجاتی اور گاتی جاتی تھیں. الغرض ان کے قبیلہ کے اکثر لوگ بھی خیبر جا کر آباد ہو گئے. خیبر والوں نے ان کے دو معزز سرداروں کا اتنا احترام کیا کہ انہیں خیبر کارئیس تسلیم کر لیا. یہ واقعہ درحقیقت غزوۂ خیبر کا دیباچہ ہے.