بنوقریظہ کے قلعے بڑے مضبوط تھے، جن میں وہ محصور ہو گئے. قریبًا ایک ماہ تک محاصرہ جاری رہا. بالآ خر تنگ آ کر انہوں نے از خود اس شرط پر ہتھیار ڈالنے اور خود کو نبی اکرم کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی کہ ان کے معاملے میں قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ ؓ کو حکم مقرر کیا جائے، وہ جو بھی فیصلہ کریں گے تسلیم کر لیا جائے گا. قبیلہ اوس ان کا حلیف رہا تھا اور ان کے مابین مدتوں سے خوشگوار تعلقات چلے آ رہے تھے، لہذا ان کو توقع تھی کہ سعد بن معاذ ؓ ان کا لحاظ کریں گے.

حضرت سعد بن معاذ ؓ غزوۂ احزاب میں ایک تیر لگنے کی وجہ سے شدید زخمی تھے اور حضور اکرم نے ان کے علاج معالجہ کے لئے مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگوا رکھا تھا اور ان کے زخم کو خود اپنے دست مبارک سے داغا تھا، انہیں ایک ڈولی میں بنوقریظہ کی بستی میں لایا گیا. حضرت سعد بن معاذ ؓ نے تورات کی رُو سے یہود کی شریعت کے عین مطابق یہ فیصلہ کیا کہ بنوقریظہ کے لڑائی کے قابل تمام مرد قتل کئے جائیں، عورتوں، بچوں اور دیگر مَردوں کو غلام بنایا جائے اور ان کے مال و اسباب کو مال غنیمت قرار دیا جائے 
(۱. چنانچہ اس فیصلے کے مطابق ان کے کئی سو جوان قتل کئے گئے اور عورتوں بچوں اور دیگر عمر رسیدہ مَردوں کو غلام بنا لیا گیا، جبکہ ان کا مال و اسباب مال غنیمت قرار دیا گیا. نبی اکرم نے حضرت سعد بن معاذ ؓ سے فرمایا کہ تم نے آسمانی فیصلہ کیا. یہ تورات کے حکم کی طرف اشارہ تھا. بنوقریظہ اگر رسول اللہ  کو حکم تسلیم کر لیتے اور اپنا معاملہ آپ کے ہاتھ میں دے دیتے تو یقینًا آپ اپنی رأفت و رحمت کی وجہ سے وہی فیصلہ فرماتے جو بنو قینقاع اور بنو نضیر کے حق میں فرمایا تھا، لیکن مشیت الٰہی یہی تھی، لہذا ان کی مت ماری گئی اور انہوں نے حضور جیسے رؤف و رحیم رسول پر عدم اعتماد کیا. چنانچہ حیی بن اخطب جو ان تمام فتنوں کا باعث تھا‘ کے جو آخری الفاظ کتب سیرت مطہرہ میں ملتے ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے کہ (۱) تورات کتاب تثنیہ اصحاح ۲۰ آیت ۱۰ میں ہے. 

’’جب کسی شہر پر حملہ کے لئے تو جائے تو پہلے صلح کا پیغام دے. اگر وہ صلح تسلیم کر لیں اور تیرے لئے دروازے کھول دیں تو جتنے لوگ وہاں موجود ہوں سب تیرے غلام ہو جائیں گے. لیکن اگر صلح نہ کریں تو ان کا محاصرہ کر اور جب تیرا خدا تجھ کو ان پر قبضہ دلا دے تو جس قدر مرد ہوں، سب کو قتل کر دے. باقی بچے، عورتیں، جانور اور جو چیزیں شہر میں موجود ہوں، سب تیرے لئے مال غنیمت ہوں گے‘‘. (مرتب) 
’’لوگو! خدا کے حکم کی تعمیل میں کوئی مضائقہ نہیں. یہ ایک حکم الٰہی تھا جو لکھا ہوا تھا. یہ ایک سزا تھی جو خدا نے بنی اسرائیل پر لکھ دی تھی‘‘. نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ کے دوران اجتماعی قتل اور سخت ترین سزا کا یہی ایک واقعہ ہے‘ جو بنوقریظہ کے ساتھ پیش آیا.