نبی اکرم  مسجد نبوی میں رونق افروز تھے کہ بنو خزاعہ کے چالیس افراد فریاد کرتے اور دہائی دیتے ہوئے وہاں پہنچے کہ ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے، اب صلح حدیبیہ کی رُو سے اے محمد( ) آپ اس کے پابند ہیں کہ ہمارا بدلہ بنوبکر اور قریش سے لیں. (۱نبی اکرم کو یہ واقعات سن کر سخت رنج ہوا. تاہم حضور نے قریش پر حجت قائم کرنے کے لئے ان کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرائط پیش کیں. پہلی یہ کہ مقتولوں کا خون بہا ادا کر دو. دوسری یہ کہ اگر تم اس کے لئے تیار نہیں ہو تو بنوبکر کی حمایت سے الگ ہو جاؤ تاکہ ہم بنو خزاعہ کے ساتھ مل کر بنو بکر سے بدلہ لے لیں. تیسری یہ کہ اگر یہ بھی منظور نہیں ہے تو اعلان کر دو کہ صلح حدیبیہ ختم ہو گئی.

قریش کے جو مشتعل مزاج اور جنگ پسند لوگ 
(Hawks) تھے، انہوں نے نبی اکرم کے قاصد کی زبانی آپ کی شرائط سنتے ہی فوراً کہا کہ ہمیں تو صرف تیسری شرط (۱) طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ اس وفد کے قائد کا نام عمرو بن سالم تھا اور اس نے ان الفاظ میں نبی اکرم کی خدمت میں فریاد پیش کی تھی.

لاھم انی شاھد محمدا
حلف ابینا وابیہ الا تلدا
فانصر رسولَ اللّٰہ نصرا عتدا
وادع عباد اللہ یاتوا مدداً 

اے اللہ!میں محمد ( ) کو وہ وعدہ یاد دلاؤں گا جو ہمارے اور ان کے قدیم خاندان میں ہوا ہے. اے اللہ کے رسول ہماری اعانت کیجئے اور اللہ کے بندوں کو پکاریئے، سب مدد کے لئے حاضر ہوں گے. (مرتب) منظور ہے. بس آج سے صلح حدیبیہ ختم!!حضور کے ایلچی یہ جواب سن کر مدینہ واپس چلے گئے.