قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش کے مُدبّر اور صلح پسند لوگوں (Doves) کو غلطی کا احساس ہوا. ان کو خوب اندازہ تھا کہ اب محمد کی طاقت کتنی ہے اور قریش کا حال کیا ہے! ان کی پختہ رائے یہ تھی کہ قریش کسی صورت میں بھی اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ رسول اللہ کا مقابلہ کر سکیں. اُس وقت ابوسفیان کو قریش کے سردار کی حیثیت حاصل تھی. وہ بہت حقیقت پسند انسان تھے، جذباتی اور مشتعل مزاج نہیں تھے، بلکہ ایک ایسے مدبر انسان تھے جو حقیقی صورت حال کا اندازہ کر کے اس کے مالہ و ماعلیہ (۱کے مطابق فیصلہ کرتا ہے. انہوں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ چند جوشیلے لوگوں سے جذبات میں آ کر بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے، اگر ہم نے صلح حدیبیہ کی تجدید نہ کرائی تو پھر قریش کے لئے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی. چنانچہ وہ خود چل کر تجدید صلح کی غرض سے مدینہ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نبی اکرم کی خدمت میں تجدید صلح کی درخواست کی، لیکن بارگاہِ رسالت سے کوئی جواب نہیں ملا. اب ان کو کوئی ایسی سفارش درکار تھی جو تجدید صلح کی کوشش میں ان کی معاون ہو. انہوں نے پہلے حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عمررضی اللہ عنہما کو بیچ میں ڈالنا چاہا لیکن دونوں نے کانوں پر ہاتھ رکھا. حضرت عمرؓ نے تو یہاں تک فرمایا:بھلا میں تم لوگوں کے لئے رسول اللہ سے سفارش کروں گا؟ خدا کی قسم اگر مجھے لکڑی کے ٹکڑے کے سوا کچھ دستیاب نہ ہو تو میں اسی کے ذریعے تم لوگوں سے جہاد کروں گا‘‘. پھر وہ حضرت علیؓ کے پاس پہنچے، وہاں حضرت فاطمہ ؓ بھی تھیں. حضرت حسنؓ کی عمر اُس وقت پانچ برس کی تھی. ابوسفیان نے ان کی طرف اشارہ کر کے حضرت فاطمہؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بچہ اپنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے دونوں فریقوں میں بیچ بچاؤ کرا دیا تو آج سے عرب کا سردار (۱) جو اس کے لئے ہے اور جو اس پر ہے. پکارا جائے گا، اور اس بچہ کے یہ کہہ دینے سے نہ معلوم کتنی جانیں بچ جائیں گی. جناب سیدہؓ نے فرمایا بچوں کو ان معاملات میں کیا دخل؟

بالآخرابوسفیان ہر طرف سے مایوس ہو کر اپنی صاحبزادی حضرت اُم حبیبہؓ کے پاس پہنچے. حضرت ام حبیبہؓ سابقون الاولون میں سے تھیں اور مہاجرین حبشہ میں سے تھیں، جہاں وہؓ اپنے شوہر کے ساتھ گئی تھیں جو ایمان لا چکے تھے. وہ شراب کے بہت رسیا تھے. حبشہ جا کر وہ مرتد ہو گئے اور عیسائی مذہب اختیار کر لیا. لہذا اُم حبیبہؓ ان کے عقد نکاح سے آزاد ہو گئیں. نبی اکرم کو جب یہ اطلاع ملی تو آپ نے ان کو نکاح کا پیغام بھیجا تھا اور نجاشی ؒ نے حضور کے وکیل کی حیثیت سے نکاح پڑھایا تھا اور ان کا مہر ادا کیا تھا. بعدہ وہ ام المومنینؓ کی حیثیت سے مدینہ منورہ تشریف لے آئی تھیں. اب ابوسفیان کی صاحبزادی حضرت ام حبیبہؓ رسول اللہ کے حرم میں تھیں. ابوسفیان ایک باپ کی حیثیت سے بیٹی کے پاس پہنچے تاکہ بیٹی سے سفارش کرائیں. لیکن ہوا یہ کہ جب وہ ان کے حجرے میں داخل ہوئے تو وہاں نبی اکرم کا بستر بچھا ہوا تھا، وہ اس پر بیٹھنے لگے تو حضرت ام حبیبہؓ نے فرمایا کہ ابا جان ذرا ٹھہریئے. پھر بستر تہہ کر کے کہا کہ اب تشریف رکھئے. 

ابوسفیان نے فوراً سوال کیا کہ بیٹی!کیا تم نے اس بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا یا مجھے اس بستر کے لائق نہیں سمجھا؟. انہوں نے جواب دیاابا جان آپ اس بستر کے لائق نہیں ہیں، یہ بستر محمد رسول اللہ کا ہے اور آپ مشرک ہیں، نجس ہیں آپ اس پر نہیں بیٹھ سکتے اس بات سے ابوسفیان جتنے خفیف اور خجل ہوئے ہوں گے اور انہوں نے کتنی سبکی محسوس کی ہوگی اس کا ہر شخص اپنے طور پر کچھ نہ کچھ اندازہ لگا سکتا ہے. اب انہیں سفارش کا حوصلہ کہاں ہو سکتا تھا، چنانچہ مزید کچھ کہے سنے بغیر مایوس ہو کر واپس ہوئے.

اب دوبارہ حضرت علیؓ کے پاس پہنچے اور سخت گھبراہٹ اور مایوسی و ناامیدی کی حالت میں کہاابوالحسن!مجھے کوئی راستہ بتاؤ. حضرت علیؓ نے کہا کہ میں نبی اکرم سے تو کچھ عرض کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا، لیکن میں تمہیں یہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ مسجد نبوی  میں جا کر یہ اعلان کر دو کہ میں نے قریش کے سردار کی حیثیت سے معاہدہ حدیبیہ کی 
تجدید کر دی. چنانچہ ابو سفیان نے حضرت علیؓ کے ایماء پر ایسا ہی کیا اور مسجد نبوی میں جا کر تجدید صلح کا یک طرفہ اعلان کر دیا کہ میں قریش کا سردار ابوسفیان صلح حدیبیہ کی تجدید کرتا ہوں. نبی اکرم کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا، لیکن یہ اعلان کر کے وہ فوراً اپنے اونٹ پر سوار ہو کر واپس مکہ روانہ ہو گئے.

مکہ پہنچنے پر لوگوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو؟ انہوں نے تفصیل بتائی. لوگوں نے کہاتو کیا محمد( ) نے اسے نافذ قرار دیا؟ ابوسفیان نے کہانہیں. لوگوں نے کہاہم نہ اسے تجدید صلح سمجھ سکتے ہیں کہ آرام سے سوئیں، نہ جنگ سمجھ سکتے ہیں کہ تیاری کریں. یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی.