اُدھر مکہ والے شش و پنج میں تھے کہ ابوسفیان جو کچھ کر کے آئے ہیں اسے کیا سمجھا جائے!اِدھر نبی اکرمﷺ نے مدینہ منورہ میں تیاریاں کرنے کا حکم دے دیا اور اپنے حلیف قبائل کے پاس قاصد بھیج دیئے کہ تیار ہو کر مدینہ آ جائیں. لیکن یہ احتیاط کی گئی کہ یہ اعلان نہیں فرمایا کہ مکہ کا قصد ہے. آپﷺ نے یہ بات بالکل مخفی رکھی کہ کدھر جانا ہے! لیکن ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ سے اُس وقت ایک خطا ہو گئی. ان کے اہل و عیال اُس وقت تک مکہ میں تھے. انہوں نے اندازہ کر لیا کہ حضورﷺ کا ارادہ مکہ پر چڑھائی کا ہے. انہیں خوف لاحق ہوا کہ اب مکہ میں جو خون ریزی ہوگی تو وہاں میرے اہل و عیال کو بچانے والا کوئی نہیں ہے، اللہ جانے ان کا کیا حال ہوگا. اس لئے کہ قریش سب سے پہلے تو مکہ میں موجود مسلمانوں یا ہجرت کرنے والوں کے اہل و عیال ہی کو ختم کریں گے. ان اندیشوں کے پیش نظر انہوں نے قریش پر احسان دھرنے کیلئے مخفی طور پر ایک خط لکھا، جس میں یہ خبر تھی کہ رسول اللہ ﷺ مکہ پر چڑھائی کی تیاریاں کر رہے ہیں اور آپﷺ جلد ہی مکہ کی طرف کوچ کرنے والے ہیں. انہوں نے یہ خط ایک عورت کے حوالے کیا کہ وہ خفیہ طور پر مکہ جا کر یہ خط سردارانِ قریش کو پہنچا دے. اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو وحی کے ذریعے اس کی خبر دے دی. چنانچہ حضورﷺ نے حضرت علیؓ اور ان کے ساتھ تین صحابہ ؓ کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جاؤ فلاں مقام پر تمہیں ایک ہودج (۱) نشین عورت ملے گی، جس کے پاس ایک رقعہ ہے، اسے لے کر آ جاؤ . یہ حضرات گھوڑوں پر سوار ہو کر تیزی سے وہاں پہنچے.
وہ عورت سمجھ گئی اور اس نے صاف انکار کر دیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے. حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تمہارے پاس کوئی خط نہ ہو، اگر تم نہیں دو گی تو ہم تمہیں برہنہ کر کے تلاشی لیں گے. یہ دھمکی سن کر اس نے بالوں کی چٹیا سے خط نکال کر پیش کر دیا. یہ خط لے کر حضرت علیؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے. خط سن کر تمام صحابہؓ کو حضرت حاطبؓ کی جانب سے افشائے راز پر حیرت بھی ہوئی، رنج بھی ہوا اور غصہ بھی آیا. حضرت عمرؓجلال میں آ کر بیتاب ہو گئے اور انہوں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ آپﷺ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ خیانت کی ہے. نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’اے عمرؓ ! جانتے نہیں ہو کہ یہ بدری ہیں اور اللہ تعالیٰ اہل بدر کو مخاطب کر کے فرما چکا ہے کہ تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے. اللہ تعالیٰ تو ان کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر چکا ہے‘‘. رسول اللہ ﷺ نے حضرت حاطبؓ سے باز پرس فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ حضورﷺ ! مجھ سے اس اندیشہ کے سبب سے یہ خطا ہو گئی ہے، جس پر میں نادم بھی ہوں اور توبہ بھی کرتا ہوں. چنانچہ ان کو معاف کر دیا گیا.