علی الصبح جب لشکر اسلام مکہ کی طرف بڑھا تو رسول اللہ  نے حضرت عباسؓ سے ارشاد فرمایا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر کھڑا کر دو تاکہ وہ افواج الٰہی کا جلال اپنی آنکھوں سے دیکھیں. نیز مکہ میں داخل ہوتے ہی اعلان کر دیا جائے کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا یا ابو سفیان ؓ کے گھر میں پناہ لے گا یا حرمِ کعبہ میں داخل ہو جائے گا تو اس کو امن دیا جائے گا.

اہل ایمان کی فوجیں الگ الگ پرچموں تلے نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتی ہوئی مکہ کی طرف بڑھ رہی تھیں اور حضرت ابوسفیانؓ ان کو دیکھ دیکھ کر متحیر ہو رہے تھے. جب انصار کے قبیلہ خزرج کا لشکر حضرت سعد بن عبادہؓ کی قیادت میں گزرا جن کے ہاتھ میں علم تھا 
اور انہوں نے ابوسفیان کو دیکھا تو بے اختیار پکار اُٹھے: 

الیومَ یومُ المَلحمۃ
الیومَ تستحلّ الکعبۃ

’’ آج خون بہانے کا دن ہے. آج کعبہ حلال کر دیا جائے گا‘‘.
مختلف لشکروں کے پیچھے کوکب نبوی نمودار ہوا. حضرت زبیرؓ بن العوام علمبردار تھے. حضرت ابوسفیانؓ کی نظر جب جمال مبارک پر پڑی تو پکار اٹھے کہ حضور ! آپ نے سنا کہ سعد یہ کہتے ہوئے گزرے ہیں کہ 
’’الیوم یوم الملحمۃ. الیوم تستحل الکعبۃ‘‘ نبی رحمت  نے ارشاد فرمایا ’’نہیں، سعد نے صحیح نہیں کہا ‘‘بلکہ 

الیومَ یومُ المرَحمۃ
والیوم یوم تعظم فیہ الکعبۃ

’’ آج کا دن رحمت کا دن ہے اور آج کا دن وہ دن ہے جس میں کعبہ کی تعظیم کی جائے گی‘‘. 

ملحم بنا ہے لحم سے. ملحم جانوروں کے ذبح خانہ اور اس مقام کو کہتے ہیں جہاں ذبیحہ کے پارچے یا قیمہ بنایا جاتا ہے. نبی اکرم نے اسی وزن پر رحم اور رحمت کے لفظ سے اس دن کو ’’یوم المرحمۃ‘‘ قرار دیا. یعنی رحم، رحمت اور شفقت کا دن. ساتھ ہی حضور نے حکم دیا کہ سعد بن عبادہؓ سے علم لے کر ان کے بیٹے قیسؓ کو دے دیا جائے.