اللہ کی شان دیکھئے، جس مکہ میں آٹھ سال قبل حضور کے قتل کا فیصلہ ہو گیا تھا اور جہاں سے نبی اکرم نے راتوں رات چھپ کر حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ہجرت فرمائی تھی، پھر غارِ ثور میں تین دن پناہ لینی پڑی تھی جس کے دہانے تک کھوجی کفارِ مکہ کو لے آئے تھے اور جہاں سے اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر حضور کو بچایا تھا جب آپ نے حضرت ابوبکرؓ کا اضطراب دیکھ کر ان سے وہ جملہ فرمایا تھا جو تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہ کا شاہکار ہے کہ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا اسی مکہ میں آٹھ سال بعد رمضان المبارک ۸ھ میں جناب محمد رسول اللہ  بحیثیت فاتح داخل ہو رہے ہیں. فرط تواضع اور عجز و انکساری کا یہ عالم ہے کہ روایات میں آتا ہے کہ حضور کی پیشانی مبارک گھوڑے کے ایال (۱کو مس کر رہی تھی. زبان مبارک پر ترانہ حمد جاری تھا. دنیا نے اس سے قبل ایسا کوئی فاتح نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ قیامت تک دیکھ سکے گی.