خطبہ کے بعد فاتح مکہ  نے مجمع کی طرف دیکھا. جبارانِ قریش سامنے تھے. فرمایا کہ تمہارا کیا گمان ہے کہ میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ یہ لوگ اگرچہ شقی، بے رحم اور ظالم تھے، لیکن مزاج شناس بھی تھے. لہذا بے اختیار پکار اُٹھے اخٌ کریمٌ وابنُ اخٍ کریمٍ ’’ آپ شریف اور بامروت بھائی ہیں اور ایک شریف اور بامروت بھائی کے بیٹے ہیں‘‘. رحمۃ۱للعالمین نے ارشاد فرمایا کہ میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ’’آج تم پر کوئی سرزنش نہیں ہے‘‘اور اِذْھَبُوْا فَاَنْـتُمُ الطُّلَقَاءَ’’جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘. ان میں وہ لوگ بھی تھے جو اسلام کی انقلابی دعوت کے دلی دشمن اور اس کے مٹانے کے درپے تھے.

وہ بھی تھے جو رسول اللہ پر طنز و تعریض کیا کرتے اور حضور پر تضحیک و تمسخر اور استہزا کے تیر برسایا کرتے تھے، حتیٰ کہ دشنام طرازی تک کیا کرتے تھے. وہ بھی تھے جن کی تیغ و سنان نے مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ (صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہم) کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں اور اہل ایمان کو شہید کیا تھا. وہ بھی تھے جو پیکر قدسی کے راستے میں کانٹے بچھاتے تھے. وہ بھی تھے جو تلاوتِ آیاتِ الٰہی اور وعظ و دعوت کے موقع پر شور و غل اور مذاق و ٹھٹھا کیا کرتے تھے. وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو دہکتی آ گ، تپتی چٹانوں اور جلتی ریت پر لٹا کر ان کی پیٹھوں اور سینوں پر آتشیں مہریں لگایا کرتے تھے. وہ بھی تھے جن کے حملوں کا سیلاب مدینۃالنبی کے چھوٹے سے شہر کی دیواروں سے آ آ کر ٹکراتا تھا.لیکن رحمت عالم  کے حلم، رافت و رحمت اور عفو کا یہ کرشمہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ، آج کے دن تم پر کوئی الزام ہے اور نہ ہی کوئی ملامت ہے. میں آج تمہیں زبانی بھی کوئی دکھ پہنچانا نہیں چاہتا کہ پچھلی کوئی بات یاد دلا کر تمہیں شرمندہ و شرمسار کروں.

کون نہیں جانتا کہ بسا اوقات جسمانی ایذا سے کہیں زیادہ تکلیف دہ زبانی ایذا ہو جاتی ہے. اجرائے وحی کے ابتدائی تین سال تک رسول اللہ  زبانی ایذاء کا ہدف بنے رہے تھے، جس پر قرآن مجید میں نبی اکرم کی دلجوئی کے لئے آیات نازل ہوا کرتی تھیں. حضور چاہے کوئی جسمانی ایذا نہ پہنچاتے لیکن اس موقع پر چند جملے ایسے ارشاد فرما سکتے تھے جو قریش کی ذہنی ایذاء کا سبب بن سکتے تھے. لیکن رؤف و رحیم اور کریم رسول کی شرافت و مروت نے یہ بھی گوارا نہیں کیا اور قریش کے اس سہمے ہوئے اور خوف زدہ مجمع سے فرمایا تو یہ فرمایا ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْھَبُوْا فَاَنْـتُمُ الطُّلَقَاءَ‘‘