صلح حدیبیہ کے ضمن میں ایک اہم بحث

یہ بات اس سے قبل بیان کی جا چکی ہے کہ ۸ ھ میں قریش کے حلیف قبیلہ بنو بکر کی طرف سے مسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنو خزاعہ پر اچانک یلغار کے بعد جب نبی اکرم نے تین شرائط کے ساتھ اپنا سفیر مکہ بھیجا تو قریش کے جوشیلے قسم کے لوگوں (Hawks) نے پہلی دو شرائط رد کرتے ہوئے صلح حدیبیہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا. لیکن قریش کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ بات ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی. چنانچہ ابوسفیان صلح کی تجدید کے لئے مدینہ آئے اور اس کے لئے بھرپور کوشش کی، لیکن اس میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی.

اس موقع پر نبی اکرم نے اس عزم (determination) کا اظہار کیا کہ اب صلح کی تجدید نہیں کرنی ہے. اگر صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر ایک بہت بڑا تضاد (contrast) سامنے آتا ہے کہ دو سال پہلے جناب محمد ایسی شرائط پر صلح فرما رہے ہیں کہ جن کے متعلق تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ محسوس کر رہے ہیں کہ یہ توہین آمیز ہیں. اس کا جو ردعمل حضرت علی اور حضرت عمررضی اللہ عنہما پر ہوا وہ اوپر بیان ہو چکا. پھر یہ کہ تمام صحابہ کرامؓ کا یہ ردعمل بھی بیان ہو چکا ہے کہ حضور فرما رہے ہیں کہ اُٹھو، احرام کھول دو اور ساتھ لائے ہوئے جانوروں کی قربانیاں دے دو، لیکن ایک شخص بھی نہیں اُٹھتا. تو دو سال پہلے بظاہر اس درجہ گر کر صلح کی گئی کہ جس سے تمام صحابہ کرامؓ کے دل مجروح ہوئے تھے اور اب قریش کا رئیس اعظم مکہ سے چل کر مدینہ آتا ہے اور سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے کہ کسی طرح صلح کی تجدید ہو جائے لیکن نبی اکرم متوجہ ہی نہیں ہو رہے اور صلح نہیں فرما رہے. تو یہ یقینًا ظاہری اعتبار سے ایک بہت بڑا تضاد (Contrast)ہے، جسے مستشرقین نے منفی رنگ میں پیش کیا ہے.