یہ جو بظاہر تضاد (contrast) نظر آتا ہے، جس پر مستشرقین نے ڈیرے جمائے ہیں، یہ دراصل ’’انقلاب‘‘ کے مراحل و لوازم کے تقاضوں سے ناواقفیت کی بنا پر ہے. نبی اکرم کی حیثیت صرف دیگر انبیاء و رُسل علیہم الصلوٰۃ والسلام والی نہیں ہے. آپ خاتَم الانبیاء اور آخر المرسلین ہیں. آپ پر نبوت و رسالت کی تکمیل ہوئی ہے. لہذا آپ کے سپرد یہ اضافی مشن بھی کیا گیا کہ آپ دین حق کو بالفعل قائم، غالب اور نافذ فرمائیں. قرآن حکیم میں آپ کی یہ خصوصی و امتیازی شان قرار دی گئی ہے اور آپ کو یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ’’وہ (اللہ) ہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو الہدیٰ (قرآن مجید) اور دین حق (کامل شریعت) کے ساتھ تاکہ وہ اس کو تمام نظام ہائے زندگی و اطاعت پر غالب کر دے‘‘.

جب کہ عام نبوت کا غالب فرضِ منصبی دعوت، تبلیغ، تذکیر اور انذار و تبشیر ہے. چنانچہ منصب نبوت کی اس بنیادی ذمہ داری کے ضمن میں قرآن مجید میں بار بار یہ الفاظ آئے ہیں کہ ہمارے نبی اور رسول کے ذمہ سوائے پہنچا دینے کے اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے.لیکن نبی اکرم پر بحیثیت خاتم الانبیاء و آخر المرسلین اس اساسی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک اضافی اور خصوصی ذمہ داری یہ بھی تھی کہ آپ دین حق کو عملاً غالب اور قائم کر کے دنیا کے سامنے اس کی ایک نظیر و مثال پیش فرما دیں تاکہ نوعِ انسانی پر ابدالآباد تک کے لئے حجت قائم ہو جائے.