اقامت دین کا کام درحقیقت ایک انقلابی جدوجہد (Revolutionary Struggle) کا متقاضی ہے. ایک قائم شدہ نظام کو بیخ و بُن سے اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک صالح نظام کو قائم کرنے کے تقاضے بالکل مختلف ہوتے ہیں. یہ انقلاب صرف دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت سے نہیں آتا. اگرچہ اس میں بھی آغاز دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت ہی سے ہوگا اور اس میں تذکیر بھی ہو گی، تبشیر بھی اور انذار بھی ہوگا. لیکن اس کا ہدف یہ ہوگا کہ ان تمام کاموں کے نتیجہ میں ایک انقلابی جمعیت فراہم کرنا، اسے منظم کرنا، اس کی تربیت کرنا اور اس میں وہ تمام ضروری اوصاف پیدا کرنا جو کسی انقلاب کے لئے لازم اور ناگزیر ہیں اور جب اس جمعیت میں مطلوبہ نظم اور ڈسپلن پیدا ہو جائے تو پھر اسے نظامِ باطل سے ٹکرا دینا. بقول علامہ اقبال ؎ 

با نشۂ درویشی در ساز و دمادم زن!
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن!