چونکہ نبی اکرم کے پیشِ نظر انقلاب کا یہ نقشہ تھا اور آپ کا دست مبارک ہر وقت حالات کی نبض پر رہتا تھا لہذا آپ نے جس وقت اور جس موقع پر جو بھی قدم اُٹھایا وہ درحقیقت اسی مقصد کے پیشِ نظر اُٹھایا. جب آپ نے یہ دیکھا کہ ابھی مہلت درکار ہے جسے ہم کہتے ہیں (to buy time) تو آپ نے اسی کے مطابق عمل فرمایا. حدیبیہ کے مقام پر بظاہر گر کر اور دب کر صلح کرنے میں یہی مصلحت تھی کہ ابھی وقت اور مہلت درکار تھی. قرآن مجید میں اس کی ایک اور مصلحت بھی بیان ہوئی ہے. وہ یہ کہ اگر اُس وقت جبکہ حضور ۶ھ میں حدیبیہ تک پہنچ گئے تھے، قریش سے مسلح ٹکراؤ ہو جاتا تو نہ صرف یہ کہ خونریزی بہت ہوتی بلکہ اندیشہ یہ تھا کہ بہت سے وہ مسلمان جو مکہ میں موجود تھے لیکن اپنی بعض مجبوریوں کے باعث ہجرت نہ کر پائے تھے، مکہ میں قریش کے ہاتھوں قتل کر دیئے جاتے. اس لئے کہ اکثر جنگ کے دوران اخلاقی اقدار اور قبائل کی روایات کا لحاظ نہیں رہتا، جذبات کے عالم میں یہ سب پامال ہو جاتی ہیں. بلکہ اس سے بڑھ کر اس بات کا بھی اندیشہ تھا کہ جنگ کے ہنگامی حالات اور طوفانی کیفیات میں وہ خود حملہ آور مسلمانوں ہی کے ہاتھوں مارے جاتے، جس کا ذکر سورۃ الفتح کی آیت۲۵ میں بایں الفاظ کیا گیاکہ: 

وَ لَوۡ لَا رِجَالٌ مُّؤۡمِنُوۡنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤۡمِنٰتٌ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡہُمۡ اَنۡ تَطَـُٔوۡہُمۡ فَتُصِیۡبَکُمۡ مِّنۡہُمۡ مَّعَرَّۃٌۢ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ 

’’اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ تم نادانستگی میں انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی)‘‘.

اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلح تصادم ٹال دیا اور فریقین کے ہاتھ روک دیئے. چنانچہ اسی کا ذکر ہے سورۃ الفتح کی آیت ۲۴ کے اس حصہ میں 
وَ ہُوَ الَّذِیۡ کَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ عَنۡہُمۡ بِبَطۡنِ مَکَّۃَ ’’وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں اُن کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ اُن سے روک دیئے‘‘.تو یہ دو مصلحتیں تھیں جن کی وجہ سے نبی اکرم نے حدیبیہ کے مقام پر بظاہر توہین آمیز شرائط پر بھی صلح کر لی.