یہ ہے اصل صورتِ حال جس کا ادراک و شعور ضروری ہے. ظاہر بات ہے کہ اگر حضور کا خصوصی مشن اور آپ کا امتیازی منصب یعنی دین حق کو بالفعل بنفس نفیس قائم کرنا نگاہوں کے سامنے نہ رکھا جائے توکوتاہ نظری کے باعث یہ تضاد نمایاں نظر آئے گا کہ دو سال پہلے حضور بظاہر اہانت آمیز شرائط پر صلح فرما رہے ہیں اور دو سال کے بعد مخالف فریق کا رئیس اعظم خود مدینہ آ کر خوشامدیں کر رہا ہے، سفارشیں پہنچانے کی کوششیں کر رہا ہے کہ کسی طرح صلح کی تجدید ہو جائے، لیکن حضور ہیں کہ اس کی بات پر توجہ ہی نہیں فرما رہے.

درحقیقت سیرت النبی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا صحیح فہم اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک یہ بات پیشِ نظر نہ ہو کہ اصل میں نبی اکرم کو کیا مشن تفویض کیا گیا تھا اور وہ کیا خصوصی ذمہ داری تھی جو حضور کے سپرد کی گئی تھی! الفاظ قرآنی ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ایک شوشہ کے تغیر کے بغیر سورۃ التوبہ، سورۃ الفتح اور سورۃ الصف میں وارد ہوئے ہیں. امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اِن الفاظ مبارکہ کو پورے قرآن مجید کا عمود قرار دیا ہے. اگر یہ کہا جائے تو بالکل صحیح ہوگا کہ ان الفاظ مبارکہ کے ذریعے حضور کو ایک صالح انقلاب عملاً برپا کرنے کا مشن سونپا گیا تھا. لہذا انقلاب کے جو مراحل ہیں ان میں سے ہر مرحلہ پر اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، چاہے بظاہر اس میں تضاد نظر آ رہا ہو.