جہاں تک ظاہری تضادات کا تعلق ہے سب سے نمایاں تضاد تو یہ نظر آتا ہے کہ مکہ میں بارہ برس تک حکم یہ ہے کہ مقابلے میں ہاتھ مت اُٹھاؤ، چاہے تمہارے ٹکڑے کر دیئے جائیں، تمہیں دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا کر تمہارے کباب بنانے کا سامان کیا جائے، تمہیں طرح طرح سے اذیتیں دی جائیں، تم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں، تمہاری نگاہوں کے سامنے تمہاری دینی بہن (حضرت سمیہؓ ) کو انتہائی بہیمانہ طور پر شہید کر دیا جائے اور ان کے شوہر (حضرت یاسرؓ ) کے جسم کے وحشیانہ طریق سے چیتھڑے اڑا دیئے جائیں. یہ سب کچھ جھیلو، برداشت کرو، تمہیں جوابی کارروائی تو کجا اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ اُٹھانے کی اجازت نہیں ہے.

لیکن مدینہ آنے کے بعد انہی 
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ کا اب حال یہ ہے کہ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ’’وہ اللہ کی راہ میں قتال کر رہے ہیں، قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں‘‘ تو بظاہر اس میں بھی بڑا نمایاں تضاد ہے. مگر یہ سارے تضادات صرف اسی طور سے حل ہوتے ہیں کہ انقلاب کے فلسفہ کو سامنے رکھ کر اس کے مختلف مراحل اور ہر مرحلہ کے مختلف تقاضوں کو سمجھنے کی معروضی کوشش کی جائے. اگر نبی اکرم کی سیرتِ مطہرہ کو اسلامی انقلابی جدوجہد سمجھ کر اس کا مطالعہ کیا جائے گا تو یہ تمام مراحل ایک ڈور میں پروئے ہوئے موتی نظر آئیں گے اور فکر و نظر گواہی دیں گے کہ ہر مرحلہ صحیح ہے اور ہر اقدام اس مرحلہ کی مناسبت سے بالکل درست اور مناسب ہے.