غزوۂ حنین و اوطاس،محاصرۂ طائف

فتح مکہ کے بعد کے چند اہم واقعات

فتح مکہ کے بعد قریش کے بہت سے لوگ ایمان لے آئے اور مکہ کے اردگرد کے بہت سے قبائل نے بھی از خود پیش قدمی کر کے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا. لیکن ہوازن اور ثقیف کے قبائل پر اس کا الٹا اثر پڑا، جو طائف اور اس کے اردگرد کی سرسبز و شاداب وادیوں میں آباد تھے. یہ دونوں قبیلے بڑے جنگجو اور فنونِ حرب سے واقف تھے. طائف اور مکہ کو بعض اعتبارات سے جڑواں شہروں(Twin Cities) کا مقام حاصل تھا. طائف میں رؤسائے مکہ کے باغات بھی تھے اور جائیدادیں بھی. پھر ان قبائل کے مابین تجارت بھی تھی اور رشتہ داریاں بھی. چنانچہ فتح مکہ کے بعد یہ قبائل بڑے مضطرب ہوئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب ہماری باری ہے. لہذا دونوں قبیلوں کے سرداروں نے مشورہ کر کے طے کیا کہ اِس وقت مسلمان مکہ میں جمع ہیں، ہم خود پیش قدمی کر کے پورے جوش و خروش اور زور و شور سے ان پر حملہ کر دیں.

ان حالات کی نبی اکرم کو مکہ میں خبر پہنچی تو آپ نے تحقیق و تصدیق کے بعد تیاریاں شروع کر دیں اور بارہ ہزار جان نثاروں کے ہمراہ حنین کی طرف پیش قدمی کی. ان میں دس ہزار تو وہ قدسی شامل تھے جو مدینہ سے آئے تھے، باقی دو ہزار میں فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے نو مسلم اور مشرکین بھی شریک تھے. یہ فوجیں حنین کی طرف بڑھیں. چنانچہ انقلابِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے ضمیمہ اور تکملہ کے طور پر اگلے ہی مہینہ شوال ۸ھ میں غزوۂ حنین اور غزوۂ اوطاس ہوا اور حضور نے طائف کا محاصرہ کرلیا. جزیرہ نمائے عرب کی حد تک حضور کے یہ آخری مسلح اقدامات تھے.