مغالطہ کا ازالہ

دس ہزار کا جو لشکر نبی اکرم کے جلو میں آیا تھا ممکن ہے کہ ان میں کچھ ضعیف الایمان اور کچھ منافقین بھی شامل ہوں. ایک بڑے مجمع میں اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا (۱) بحیثیت سربراہِ مملکت سکتا. پھر اس لشکر میں دو ہزار کے لگ بھگ وہ افراد بھی تھے جن میں سے اکثر ایک ماہ قبل ہی ایمان لائے تھے. رمضان ۸ھ میں مکہ فتح ہوا ہے اور شوال ۸ھ میں غزوۂ حنین ہوا ہے. گویا ایمان کی حالت میں ان پر ایک ماہ سے زیادہ مدت نہیں گزری تھی. پھر اس دو ہزار کی تعداد میں کچھ وہ لوگ بھی شامل تھے جو ابھی ایمان ہی نہیں لائے تھے. ہو سکتا ہے کہ قبیلہ کی عصبیت یا مالِ غنیمت کے حصول کے لئے اسلامی لشکر کے ساتھ ہو گئے ہوں.

بہرحال تھوڑے یا زیادہ لوگ اپنی کثرت پر نازاں تھے کہ آج ہمیں کون شکست دے سکتا ہے. چونکہ اُمت مسلمہ کو پوری نوعِ انسانی کی رُشد و ہدایت، دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے بپا کیا جا رہا تھا لہذا غلطی پر تنبیہہ اور سزا بھی ضروری تھی. جیسا کہ غزوۂ اُحد کے موقع پر ہوا تھا کہ پینتیس افراد کی طرف سے اپنے لوکل کمانڈر کے حکم کی نافرمانی کی پاداش میں ابتدائی فتح شکست میں بدل گئی تھی اور ستر صحابہ کرامؓ شہید اور خود نبی اکرم زخمی ہوئے تھے. چنانچہ غزوۂ حنین میں بھی کثرت پر جو ناز ہوا تھا اس پر یہ سزا ملی کہ ابتدا میں ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے اسلامی لشکر کی صفیں درہم برہم کر دیں. اللہ تعالیٰ نے اس طور پر یہ سبق دیا کہ حزب اللہ کا توکل اسباب پر نہ ہو بلکہ مسبب الاسباب پر ہو. حسب استطاعت مادی اسباب و وسائل ضرور فراہم کئے جائیں لیکن مؤمن کو تو ہر آن اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر نگاہ رکھنی چاہئے 
اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ’’اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور اللہ پر چاہئے بھروسہ کریں ایمان والے‘‘. اللہ کے اِذن کے بغیر پتّا تک جنبش نہیں کر سکتا. کسی کام کے لئے کتنے ہی اسباب و وسائل جمع ہو جائیں، لازم نہیں ہے کہ وہ کام حسب منشاء تکمیل پا جائے اور کسی شے کے لئے کچھ بھی وسائل و اسباب موجود نہ ہوں پھر بھی اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ شے عدمِ محض سے آنِ واحد میں وجود میں آ جائے.

جب تک اللہ کی قدرتِ کاملہ پر اس نوع کا ایمان نہ ہو اور جب تک اُس (تعالیٰ) کی ذات پر کامل توکل نہ ہو جائے اُس وقت تک درحقیقت وہ ابتدائی اوصاف (Pre-qualifications) اور وہ صلاحیتیں جو اسلام کو دنیا میں ایک کامل نظامِ زندگی کی حیثیت سے غالب، قائم اور نافذ کرنے کے لئے درکار ہیں، انہی کا فقدان ہے. اسلامی انقلاب جیسے عظیم ترین کام کے لئے تو وہ جماعت درکار ہے جس کے ہر ہر فرد میں یہ صفات پہلے وجود میں آ چکی ہوں کہ ان کا اللہ پر کامل ایمان و ایقان ہو اور ان کا کوئی تکیہ اور بھروسہ ظاہری اسباب و وسائل اور ذرائع پر نہ ہو بلکہ توکل خالصتًا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو. اسی بات کو اذہان و قلوب میں راسخ کرنے کے لئے حنین میں وقتی و عارضی شکست کے ذریعے مسلمانوں کو جھنجوڑدیا گیا.