حنین اور اوطاس کی شکست خوردہ فوجیں طائف میں پناہ گزین ہوئیں اور طائف والوں کی مدد سے جنگ کی تیاریاں شروع کر دی گئیں. یہاں ثقیف کا جو قبیلہ آباد تھا وہ قریش کا قریبًا ہمسر تھا نہایت شجاع، دلیر اور فنونِ جنگ سے واقف. عروہ بن مسعود یہاں کا رئیس تھا. سورۃ الزخرف میں مشرکین کا جو یہ قول نقل ہوا ہے وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ ﴿۳۱﴾ ’’اور وہ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اُترا یہ قرآن کسی بڑے شخص پر دو بستیوں میں سے‘‘. قریتین سے ان کی مُراد مکہ اور طائف کے شہر تھے اور طائف کے بڑے آدمی سے مراد یہی عروہ بن مسعود تھا. عروہ کا ذکر صلح حدیبیہ کے ضمن میں آ چکا ہے. وہ بعد میں ایمان لے آئے تھے لہذا صحابیت کے شرف سے مشرف ہوئے.

شہر طائف کے گرد مضبوط فصیل تھی اور وہاں ایک مضبوط قلعہ بھی موجود تھا، جس میں طائف والوں نے سال بھر کا سامانِ خورد و نوش جمع کر لیا تھا. فصیل پر چاروں طرف منجنیق اور جابجا تیر انداز معین کر دیئے گئے تھے. اسلامی فوجوں نے محاصرہ کیا اور یہ پہلا موقع تھا جب اسلامی فوج کی طرف سے فصیل شکن آلات کا استعمال ہوا. طائف کے لوگوں نے فصیل کے اوپر سے لوہے کی گرم سلاخیں اور آگ برسائی اور اتنی شدت سے تیر پھینکے کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا. بیس دن محاصرہ جاری رہا لیکن شہر فتح نہ ہو سکا. نبی اکرم نے مشاورت کے بعد محاصرہ اُٹھا لیا. اس موقع پر بعض صحابہ کرامؓ نے حضور سے عرض کیا کہ اہل طائف کے لئے بد دُعا فرمائیں. لیکن نبی رحمت  نے بددعا کے بجائے یہ دُعا فرمائی 
اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا وَائْتِ بِھِمْ ’’اے اللہ! ثقیف کو ہدایت بخش کہ وہ میرے پاس حاضر ہو جائیں‘‘. رسول اللہ کی دُعا قبول ہوئی اور محاصرہ اُٹھا لینے کے چند دنوں بعد ہی عروہ بن مسعود اپنے چیدہ چیدہ ساتھیوں کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دولت ایمان سے مالا مال ہوئے. رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین. بعد ازاں انہی حضرات کی دعوت و تبلیغ سے ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں کے تمام افراد ایمان لے آئے.