سیرت النبی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی سایہ دار ہموار شاہراہ پر چلنے (Smooth Sailing) والا معاملہ نہیں تھا کہ جس میں کوئی پیچیدگی نہ ہو، کوئی تکلیف نہ ہو، کوئی نشیب و فراز نہ ہوں اور انقلاب کی تکمیل ہو جائے. بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی انقلابی جدوجہد کی راہ میں جتنی مشکلات اور رکاوٹیں آ سکتی ہیں وہ ہمیں آپﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بتمام و کمال نظر آتی ہیں. نبوت و رسالت کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کے بعد حضورﷺ کی بائیس تئیس سالہ حیاتِ طیبہ نہایت شدید اور جاں گسل جدوجہد میں گزری ہے اور آپﷺ کو بے پناہ مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے. خود آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مجھ پر تنہا وہ سب تکلیفیں اور مشکلیں بیتی ہیں جو تمام انبیاء و رسل علیہم السلام پر بیتی تھیں.اگرچہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے، اگر اس کی مشیت ہوتی تو وہ اپنے محبوبﷺ اور اپنے حبیبﷺ کے پائے مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھنے نہ دیتا اور انقلابِ اسلامی کی تکمیل بھی ہو جاتی، لیکن بالفعل ایسا نہیں ہوا.
حضورﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کو بے حد و حساب تکلیفیں جھیلنی پڑی ہیں، مصائب برداشت کرنے پڑے ہیں، بارہا آپﷺ کو پیچیدہ سے پیچیدہ صورت حال سے عہدہ برآ ہونا پڑا ہے. مشرکین و کفار کی طرف سے استہزاء، تمسخر اور طعن و تشنیع سے جو ذہنی اذیت و کوفت آپﷺ کو پہنچتی رہی ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں. لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ متعدد مواقع پر ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ لوگ جو حضورﷺ کا کلمہ پڑھ رہے تھے ان کے ہاتھوں بھی نبی اکرمﷺ کو شدید نوعیت کی قلبی و ذہنی کوفت اور اذیت اُٹھانا پڑی.آخر عبداللہ بن اُبی اور اس کے دوسرے منافق ساتھی بھی تو کلمہ گوتھے اور ان کا شمار بھی مسلمانوں میں ہوتا تھا. یہی عبداللہ بن اُبی ہے جس نے کئی بار مہاجرین و انصار میں پھوٹ ڈالنے، انہیں باہم دگر دست و گریباں کرانے اور مہاجرین کی توہین و تذلیل کی کوششیں کیں. اسی طرح ان منافقین نے غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق کے مواقع پر مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے جو اوچھے ہتھکنڈے اختیار کئے وہ بھی آنحضورﷺ اور صحابہؓ کے لئے انتہائی ذہنی اذیت کا باعث بنے.
پھر یہی عبداللہ بن اُبی ہے جس نے حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگائی، جس کے نتیجے میں نبی اکرمﷺ کو انتہائی ذہنی و قلبی اذیت جھیلنی پڑی. پھر یہ کہ اس معاملے میں چند وہ لوگ بھی ملوث ہو گئے جو صادق الایمان تھے. اس لئے کہ انسان کی طبعی کمزوری کے پیشِ نظر اس میں ذہنی آمادگی رہتی ہے کہ کسی کے بارے میں بری بات بیان ہو تو اسے وہ جلد قبول کر لیتا ہے، جبکہ اگر کسی کے بارے میں اچھی بات بیان ہو تو اسے آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا. واقعہ افک کے بعد جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا متواتر ایک مہینہ نہایت سخت کرب کی حالت میں گزرا. اس لئے کہ قریبًا سوا مہینہ کے بعد سورۂ نور نازل ہوئی جس میں حضرت عائشہ صدیقہؓ پر لگائی گئی تہمت کی تردید کی گئی اور آپؓ کی پاک دامنی کی شہادت دی گئی. اس واقعے کا بظاہر حیات النبیﷺ کے انقلابی پہلو سے کوئی تعلق نہیں، تاہم یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ انقلابی جدوجہد کے شدائد کے ساتھ ساتھ آپ کو ذہنی کوفت کے بدترین تجربات بھی پیش آئے. مگر ذہن کو بری طرح متاثر کرنے والے یہ واقعات آپ کی انقلابی جدوجہد کو ذرا بھی متزلزل نہ کر سکے.