تقسیم غنائم اور ایک پیچیدہ صورتِ حال

مختصراً یہ کہ اس غزوہ کی فتح کے نتیجے میں بے شمار مال و اسباب ہاتھ آیا. صدقات کی تقسیم کے لئے سورۂ توبہ میں جو مدات بیان ہوئی ہیں ان میں ایک مَد ’’اَلْمُولَّفَۃُ قُلُوْبُھُمْ‘‘ بھی ہے. یعنی وہ لوگ بھی ان صدقات کے مستحق ہیں جن کی تالیف قلب مطلوب ہو. چنانچہ رسول اللہ  نے غنائم کی تقسیم میں قریش کے ان لوگوں کو زیادہ نوازا جو فتح مکہ کے بعد نئے نئے ایمان لائے تھے. ان میں سے بھی خاص طور پر جو قریش کے مختلف گھرانوں کے سربراہان اور سردار تھے ان کو مالِ غنیمت میں سے نسبتًا زیادہ حصہ عطا فرمایا.

اب اس تقسیم پر چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں، کیونکہ اس عمل میں اتفاقی اور واقعاتی اعتبار سے یہ صورت حال موجود تھی کہ مکہ والے بہرحال نبی اکرم کے قبیلہ کنبہ کے لوگ تھے، آپکے رشتہ دار تھے. اگرچہ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اگر مکہ کے لوگ آپ کے ہم قبیلہ اور رشتہ دار نہ ہوتے تب بھی حضور ان کے ساتھ یہی معاملہ کرتے. اب صورت واقعہ یہ بنی کہ اگرچہ حضور یہ معاملہ تالیف قلبی کی غرض سے فرما رہے تھے لیکن بالفعل تو معاملہ یہ ہو گیا کہ یہ تالیف قلب جن کی ہو رہی تھی وہ آپ کے رشتہ دار اور کنبے قبیلے والے لوگ تھے. چنانچہ مسلمانوں کے لشکر میں جو تھوڑے بہت منافقین شامل تھے، اب ان کو موقع مل گیا اور انہوں نے اس معاملے کو خوب اُچھالا.اور یہ معاملہ چونکہ بہت نازک 
(Sensitive) تھالہذا منافقین کے پروپیگنڈے سے عام بہن تھیں. گرفتاری کے موقع پر انہوں نے کہا کہ ’’میں تمہارے نبی کی بہن ہوں‘‘. لوگ تصدیق کے لئے فوراً ان کو نبی اکرم کی خدمت میں لائے. 

حضرت شیما نے پہچان کے طور پر اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی، کیونکہ حضور نے ایک دفعہ بچپن میں پیٹھ پر دانتوں سے کاٹا تھا، اس کا نشان موجود تھا. حضور کی آنکھوں میں آنسو آ گئے. آپ نے ان کے بیٹھنے کے لئے خود اپنی رداءِ مبارک بچھائی، دلجوئی کی باتیں کیں، چند اونٹ اور بکریاں مرحمت فرمائیں اور ارشاد فرمایا کہ جی چاہے تو میرے ساتھ چل کر رہو یا گھر جانا چاہو تو وہاں پہنچا دیا جائے. پہلے تو وہ ایمان لائیں، پھر عرض کیا کہ مجھے میرے اہل خاندان تک پہنچا دیا جائے. چنانچہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ ان کے قبیلہ میں پہنچا دیا گیا. رضی اللہ تعالیٰ عنہا. (مرتب) مسلمانوں میں بھی تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی. آخر وہ لوگ بھی انسان ہی تھے اور انسان کی جو طبعی و فطری کمزوریاں ہیں وہ تو موجود رہتی ہیں. چنانچہ قرآن نے اسی حقیقت کو کہیں یوں بیان فرمایا ہے کہ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا کہیں اس طرح کہ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍ اور کہیں یوں کہ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا یعنی انسان میں خلقی طور پر کچھ کمزوریاں رکھی گئی ہیں، تب ہی تو وہ امتحان اور آزمائش کے اندر ڈالا گیا ہے. اگر وہ ہر اعتبار سے کامل (Perfect) ہوتا، اس کی خلقت میں کسی پہلو سے بھی کوئی نقص نہ ہوتا تو پھر وہ فرشتہ ہوتا، پھر اس کے امتحان کی کیا احتیاج تھی؟. چنانچہ یہی ہوا کہ اس واقعے سے مسلمانوں میں ایک عام بے چینی پھیل گئی اور خاص طور پر انصار میں سے بہت سے مسلمانوں کی زبانوں پر، جن میں مومنین صادقین بھی شامل تھے، (۱یہ بات آ گئی کہ: 

’’دیکھا! جب جان دینے کا وقت آتا ہے، قربانیوں کا موقع ہوتا ہے تو ہم (یعنی مدینہ والے انصار) یاد آتے ہیں اور جب مالِ غنیمت کی تقسیم کا مرحلہ آیا ہے تو مکہ والے، اپنے قبیلے والے، اپنے اعزہ و اقرباء یاد آ گئے‘‘.

یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی تھی اور چہ میگوئیوں میں اضافہ ہو رہا تھا. نبی اکرم کے گوش مبارک تک یہ تمام باتیں پہنچ رہی تھیں اور حضور کے قلب پر جو کیفیات گزر رہی ہوں گی اس کا احساس ہر حساس شخص کر سکتا ہے.