مالِ غنیمت کی تقسیم کے بعد اسیرانِ جنگ کی باقاعدہ تقسیم کا مسئلہ پیش آیا. یہ تمام افراد اس وقت تک جعرانہ میں محفوظ تھے. اصول کے مطابق ان کو لشکر میں شریک لوگوں میں تقسیم کرنا باقی تھا کہ ہوازن و ثقیف کی جانب سے ایک معزز سفارت نبی اکرم کے خیمہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کی درخواست پیش کی. رئیس سفارت نے کھڑے ہو کر حضور کو مخاطب کر کے کہا کہ ’’اے محمد( ) جو عورتیں محبوس اور اسیر ہیں ان میں تمہاری پھوپھیاں اور خالائیں بھی ہیں. تم نے ہمارے قبیلہ کی ایک خاتون کا دودھ پیا ہے. (مُراد ہیں حضرت حلیمہؓ ) لہذا ہم سب تمہارے قرابت دار ہیں.

خدا کی قسم! اگر سلاطین عرب میں سے کسی نے ہمارے خاندان کا دودھ پیا ہوتا تو ان سے بھی کچھ امیدیں وابستہ ہوتیں اور تم سے تو کہیں زیادہ توقعات ہیں‘‘. نبی اکرم نے جواب میں فرمایا کہ خاندانِ عبدالمطلب کا جس قدر حصہ ہوگا وہ میری طرف سے آزاد ہے. لیکن عام رہائی کی تدبیر یہ ہے کہ نماز کے اجتماع میں یہ درخواست پیش کرو. چنانچہ نمازِ ظہر کے بعد رئیس سفارت نے یہ درخواست مجمع میں پیش کی. حضور نے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’مجھے صرف اپنے خاندان پر اختیار ہے جس کا حصہ میں چھوڑتا ہوں، اور تمام مسلمانوں سے بھی اسیران کی رہائی کی سفارش کرتا ہوں‘‘. مہاجرین و انصار اور دوسرے لوگ پکار اُٹھے ’’ہمارا حصہ بھی حاضر ہے‘‘. چنانچہ اس طرح دفعتًا چھ ہزار اسیران آزاد ہو گئے.